عنوان: باپ اگر کسی بیٹے کو زندگی میں کچھ دے دے، تو کیا میراث میں اس کو کم حصہ ملے گا؟(8592-No)

سوال: مفتی صاحب ! ہم دو بھائی ہیں، میں بے روزگار ہوں اور دوسرے کی دکان ہے، میرے والد صاحب بیمار اورعمررسیدہ ہیں۔ میرے والد صاحب کی رقم بینک میں جمع ہے، آج سے تقریبا پانچ چھ سال پہلے میرے والد صاحب نے میرے بڑے بھائی کو دو لاکھ روپے کاروبار کے لیے دیے تھے، لیکن مجھے ابھی تک کاروبار کے لئے پیسے نہیں دیے گئے۔
میرا سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب کی رقم جب ہم دو بھائیوں میں تقسیم ہو گی تو کیا اسلامی روح سے مجھے دو لاکھ اضافی ملنے چاہیے اور اس کے بعد بقایا رقم دو حصوں میں تقسیم ہو؟

جواب: والد کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کے درمیان مالی معاملات میں برابری کو مدنظر رکھیں، تاہم وہ اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے خود مالک ہیں، اگر وہ کسی کو کوئی مال وغیرہ مالک بنا کر قبضہ دے دیں، تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے میراث میں اس کا یا کسی اور وارث کا حصہ تبدیل نہیں ہوتا، بلکہ شریعت نے ورثاء کے لیے جو حصے مقرر کیے ہوئے ہیں، ہر ایک کو صرف وہی حصے ملتے ہیں۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر والد نے آپ کے بھائی کو دو لاکھ کی رقم مالک بنا کردی تھی، تو اس کی وجہ سے میراث میں آپ کے بھائی کا یا آپ کا حصہ زیادہ یا کم نہیں ہوگا، بلکہ ہر ایک کو وہی حصہ ملے گا، جو شریعت کی طرف سے پہلے سے مقرر کردہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الكتب العلمية)
وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى { إن الله يأمر بالعدل والإحسان}. ( وأما ) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى.
وقال محمد: العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين. وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض. وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم كل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال النبي عليه الصلاة والسلام فأرجعه وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى. ولو نحل بعضا وحرم بعضا جاز من طريق الحكم لأنه تصرف في خالص ملكه لا حق لأحد فيه إلا أنه لا يكون عدلا سواء كان المحروم فقيها تقيا أو جاهلا فاسقا على قول المتقدمين من مشايخنا وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.

والله تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 598 Oct 13, 2021
bap / baap / walid agar kisi bete / son ko zindagi me / may / mein kuch de de, to kia miras / meraas me / may / mein us ko hisa / hissa milega?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.