سوال:
مفتی صاحب ! خواتین کو فری لانسنگ ملازمت کے دوران کلائینٹ سے رابطہ کرنا پڑے، تو وائس کال یا ویڈیو کال (چہرہ چھپاکر) کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟ نیز کیا پروفائل پر اپنی تصویر، اسکارف، عبایا پہنا ہو اور چہرہ کھلا ہوا ہو، یا ہاتھ یا سائٹ پوز والی تصویر لگا سکتی ہیں یا نہیں؟
براہ کرم ان باتوں کا جواب عنایت فرمادیں۔
جواب: قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو پردہ کرنے اور بلا ضرورت گھر سے نہ نکلنے کا حکم دیا ہے، اور ضرورت کے وقت پورا جسم ڈھانپ کر گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اے نبی ! تم اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر جھکا لیا کریں"۔ (سورۃ الاحزاب)
اسی طرح نا محرم سے غیر ضروری بات، بے تکلفی اور ان کے ساتھ خلوت (تنہائی) اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، البتہ ضرورت کے موقع پر پردے کا لحاظ کرتے ہوئے بات کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
"اور جب پیغمبروں کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر مانگو۔ یہ تمہارے اور ان کے دونوں کے دلوں کے لئے بہت پاکیزگی کی بات ہے"(سورۃ الاحزاب)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
"اے نبی کی بیویو ! اگر تم تقوی اختیار کرو تو تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ لہذا تم نزاکت کے ساتھ بات مت کیا کرو، کبھی کوئی ایسا شخص بیجا لالچ کرنے لگے جس کے دل میں روگ ہوتا ہے، اور بات وہ کہو جو بھلائی والی ہو"۔(سورۃ الاحزاب)
مذکورہ بالا آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتوں کو حاجتِ شدیدہ کی صورت میں نامحرم کے ساتھ بقدرِ ضرورت گفتگو کی مشروط اجازت دی گئی ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر بات کرنا ضروری ہو، اور اس پر دنیاوی مصالح موقوف ہوں، یعنی ایسی ضرورت پائی جارہی ہو کہ اس گفتگو کے بغیر دنیوی مصالح فوت ہوتے ہوں، تو درج ذیل شرائط کے ساتھ آڈیو کال کی اجازت ہوگی:
1۔ بات کرتے وقت اس نزاکت اور لطافت کے لہجے سے بتکلف پرہیز کیا جائے، جو فطرتاً عورتوں کی آواز میں ہوتا ہے۔
2۔ مختصر اور ضروری بات کی جائے، غیر ضروری جملوں اور بات کو طول دینے سے اجتناب کیا جائے۔
3۔ بات کرنے میں فتنے کا اندیشہ نہ ہو، اگر کہیں فتنے کا اندیشہ ہو، تو وہاں بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ کسی بھی خاتون کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ضرورت کے مواقع کے علاوہ اپنی تصویر کو بطور پروفائل (profile) استعمال کرے یا اس کی تشہیر کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الأحزاب، الآیۃ: 53)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمًاo
و قوله تعالیٰ: (الأحزاب، الآیۃ: 59)
يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًاo
و قوله تعالیٰ: (الأحزاب، الآیۃ: 32)
يَانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًاo
و قوله تعالیٰ: (النور، الآیۃ: 31)
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
مشکوٰۃ المصابیح: (باب النظر الی المخطوبہ، رقم الحدیث: 3118، 935/2، ط: المكتب الإسلامي)
عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:لا يخلون رجل بامرأة إلا كان الشيطان ثالثهما۔
رد المحتار: (فصل في النظر و اللمس، 406/1، ط: دار الفکر)
نغمۃ المرأۃ عورۃ …. ذکر الإمام أبو العباس القرطبي في کتابہ في السماع: ولا یظن من لا فطنۃ عندہ أنا إذا قلنا صوت المرأۃ عورۃ، أنا نرید بذٰلک کلامہا؛ لأن ذٰلک لیس بصحیح، فإنا نجیز الکلام مع النساء للأجانب ومحاورتہن عند الحاجۃ إلی ذٰلک، ولا نجیز لہن رفع أصواتہن ولا تمطیطہا ولا تلیینہا وتقطیعہا، لما في ذٰلک من استمالۃ الرجال إلیہن وتحریک الشہوات منہم، ومن ہٰذا لم یجز أن تؤذن المرأۃ، قلت: ویشیر إلی تعبیر النوازل بالنغمۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی