سوال:
ایک تیئس (23) سال کی لڑکی ہے جو لوگوں کے گھروں میں کام کر کے گزر بسر کرتی ہے، اس کو دو مہینے کا حمل ہے، ایک چھوٹا بچہ پہلے بھی ہے، بہت مجبور ہے، شوہر تین طلاق دے کر چلا گیا ہے، اس نے اپنے شوہر کا قرضہ اتارنے کے لیے پندرہ ہزار ماہانہ کی کمیٹی (BC) بھی ڈالی ہوئی ہے جو اسے لاازمی دینی ہوتی ہے، اس کنڈیشن میں کام بھی نہیں ہوتا ہے، دو گھروں کا پورا پورا کام کرے تو اتنے پیسے بنتے ہیں جس سے وہ کمیٹی دے سکے اور پھر کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں بچتا۔ اس ساری صورتحال کے بعد پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہ اسقاطِ حمل کرواسکتی ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شوہر نے اپنی بیوی کو حالت حمل میں تین طلاقیں دی ہیں، اس لیے بچے کی پیدائش تک عورت عدت میں رہے گی اور اس دوران عورت کا نان و نفقہ اور رہائش کا انتظام شوہر کے ذمّہ شرعاً لازم ہے، اس لیے عورت کو چاہیے کہ شوہر سے عدت کے نان و نفقہ اور رہائش کا مطالبہ کرے، اگر شوہر اپنی شرعی ذمہ داری پوری نہیں کرتا تو عورت کا نان و نفقہ اس کے والد کے ذمہ ہوگا، البتہ واضح رہے کہ نان و نفقہ اور ماہانہ کمیٹی کی ادائیگی کے لیے کام کاج کرنے کی غرض سے اسقاط حمل کرانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (563/1، ط: دار الفكر)
ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة.
الهندية: (557/1، ط: دار الفكر)
المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی