سوال:
السلام علیکم! میرے والد محترم 2000ء میں وفات پاگئے، جب میں ایک سال کا تھا، میرا ایک بڑا بھائی ہے، جو مجھ سے چار سال بڑا ہے، چھ بہنیں تھیں، تین شادی شدہ اور تین غیر شادی شدہ تھیں۔
والد صاحب کی چھ ایکڑ زمین تھی، جب میں سات سال کا ہوا، تو میری بڑی بہن جو شادی شدہ تھی، انھوں نے سب بہنوں کو کہا کہ ہمیں اپنے حصہ کی زمین بھائیوں کو دینی چاہیے، باقی جو دو شادی شدہ تھیں، وہ زمین دینے پر راضی نہ ہوئیں، تو بڑی بہن نے اپنے خاوند کی مدد سے اور تین غیر شادی شدہ بہنوں کو ساتھ لیا اور اپنے اپنے حصہ کی زمین ہمارے نام کرادی، یعنی چار بہنوں نے اپنا زمین کا حصہ ہمیں دے دیا، اس وقت ایک شادی شدہ تھی اور تین غیر شادی شدہ تھیں، اب ان میں سے دو بہنیں وفات پا چکیں ہیں، ان کی اولاد ہے، اور دو بہنیں حیات ہیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ جو زمین غیر شادی شدہ بہنوں نے ہمیں اس وقت دی تھی، وہ ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟
دوسری بات یہ ہے کہ وہ دو بہنیں جنہوں نے ہمیں زمین نہیں دی تھی، بعد میں وہ زمین کی آدھی قیمت لے کر زمین ہمیں دے گئیں۔ کیا یہ بھی جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت کی طرف سے وراثت ایک لازمی حق ہے، وارث کے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ اس کی ملکیت میں شامل ہو جاتا ہے، لہذا میراث میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دوسرے شریک وارث کے حق میں دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے۔
ہاں! ترکہ تقسیم ہوجائے اور وہ وارث اپنے حصے پر قبضہ کرلے، اس کے بعد وہ اپنا حصہ کسی دوسرے وارث کو دینا چاہے، تو ایسا کرنا شرعاً جائز اور معتبر ہے، لیکن خاندانی یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کسی وارث کا اپنے حق کو معاف کرنا، جیسا کہ بعض علاقوں میں معاشرتی اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو معاف کر دیتی ہیں، ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا بہنوں کے معاف کرنے کے باوجود وہ حصہ ان کی ملیکت میں برقرار رہے گا، بھائیوں کا اس پر قبضہ شرعا معتبر نہیں ہوگا۔
صورت مسئولہ میں جن بہنوں (خواہ وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ) نے وراثتی زمین میں سے اپنا حصہ لینے کے بعد بغیر کسی دباؤ کے اپنی رضا و خوشی سے بھائیوں کو اپنا حصہ دیا ہے، تو یہ ان کی طرف سے ہبہ (گفٹ) ہے، اس پر اگر بھائیوں نے قبضہ کر لیا ہے، تو وہ ان کی ملکیت سمجھی جائے گی، لیکن اگر بہنوں نے کسی دباؤ یا لوگوں کے طعنوں سے بچنے کے لیے اپنا حصہ بھائیوں کو دیدیا تھا، تو وہ حصہ بدستور ان بہنوں کی ملکیت میں باقی رہے گا، اگر وہ زندہ ہیں، تو انہیں واپس کر دیا جائے اور اگر وفات پا چکی ہیں، تو ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگا۔
اور جن بہنوں نے اپنا حصہ آدھی قیمت پر اپنے بھائیوں کو دیا ہے، تو ایسا کرنا شرعاً جائز ہے اور اس کے نتیجے میں وہ حصہ بھائیوں کی ملکیت میں چلا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".
تکملۃ رد المحتار: (505/7، ط: سعید)
"الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".
الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق، ص: 309، ط: قدیمی)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی