سوال:
مفتی صاحب ! کرایہ دار سے کرایہ لینے کے بجائے زکوۃ کی نیت سے کرایہ کم کر دینے یا چھوڑ دینے سے مالک مکان کی زکوۃ ادا ہو جائے گی؟
جواب: واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مستحقِ زکوۃ کو مالک بنا کر وہ رقم یا چیز اس کے حوالہ کی جائے۔
لہذا اگر آپ اپنے مستحقِ زکوۃ کرایہ دار کو زکوۃ ادا کرنا چاہتے ہیں، تو کرایہ کی مد میں زکوۃ کی رقم محض حساب کرنے، یا اپنے کرایہ دار کو کرایہ معاف کرنے کی صورت میں زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔
شرعاً اس کی صورت یہ ہوگی کہ آپ اپنی زکوۃ کی رقم اپنے کرایہ دار کو پورے اختیار کے ساتھ قبضہ دے کرمالک بنادیں کہ وہ اپنی مرضی سے اسے جہاں چاہے خرچ کرے، پھر اس سے مطالبہ کریں کہ میرے کرایہ کی رقم مجھے ادا کردو، چنانچہ اگر وہ مالک بن کر بخوشی و رضا و رغبت کے اس رقم سے آپ کو کرایہ ادا کردے، تو اس طرح آپ کا کرایہ بھی وصول ہوجائے گا اور زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (256/2، ط: دار الفکر)
(هي)۔۔۔۔۔شرعا (تمليك) خرج الإباحة۔۔۔۔۔۔۔(جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه۔۔۔الخ
(قوله فلو أسكن إلخ) عزاه في البحر إلى الكشف الكبير وقال قبله والمال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو خاص بالأعيان فخرج به تمليك المنافع. اه.
و فیہ ایضاً: (244/2، ط: دار الفکر)
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی