سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا، ہمارے گاؤں میں ایک فلاحی تنظیم ہے، انہوں نے سب سے پہلے میلاد النبی ﷺ کی ایک تقریب منعقد کرنے کیلئے ڈونیشن اکھٹی کی، اور جو پیسے بچ جائیں گے، وہ مسجد میں لگانے کا کہا گیا تھا۔ پوچھنا یہ تھا کہ کیا اب ان پیسوں کو صرف مسجد فنڈ میں دے سکتے ہیں یا تقریب کو چھوڑ کر کسی غریب کو دے سکتے ہیں؟ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
جزاک اللہ
جواب: تقریبِ میلاد کو ترک کرنے کی صورت میں چندہ دینے والے حضرات سے رابطہ کیا جائے، جو حضرات ساری رقم مسجد فنڈ میں دینے پر آمادہ ہوں، تو ان کی رقم مسجد میں دے سکتے ہیں، اور جو راضی نہ ہوں، ان کی رقم واپس کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطني: (رقم الحدیث: 2883، 423/3، ط: مؤسسة الرسالة)
عن عمرو بن يثربي , قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بمنى فسمعته يقول: «لا يحل لامرء من مال أخيه شيء إلا ما طابت به نفسه».
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی