سوال:
براہ کرم مندرجہ ذیل حدیث کے بارے میں رہنمائی فرمادیں کہ صحیح ہے یا نہیں؟ اور کس کتاب میں ہے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور ﷺ مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے تھے، ایک حصہ حق تعالی شانہ کی عبادت میں خرچ کرتے، دوسرا حصہ گھر والوں کے ادائے حقوق میں خرچ فرماتے تھے، تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات کے لیے رکھتے تھے، پھر اس حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرمادیتے، اس طرح خصوصی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس وقت داخل ہوتے، ان خواص کے ذریعے سے مضامین عوام تک پہنچے۔ (ترمذی)
جواب: : سوال میں ذکرکردہ حدیث ’’ھند أبی ھالہ‘‘ سے منقول ایک طویل روایت کا حصہ ہےجو اگرچہ سندکے اعتبارسے ضعیف ہے ،لیکن متعدد طرق سے مروی ہونے اور شاھد موجود ہونے کی وجہ سے اس روایت کو تقویت مل جاتی ہے، اور سند میں موجود ضعف کم ہوجاتا ہے، لہذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔
اس روایت کا ترجمہ ،تخریج اور اسنادی حیثیت مندرجہ ذیل ہے:
ترجمہ:
حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے جناب رسول اللہ ﷺ کے مکان پر تشریف لے جانے کے حالات دریافت کیے، تو آپ نے فرمایا کہ حضور اقدس ﷺ مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں پر منقسم فرماتے تھے۔
ایک حصہ حق تعالیٰ شانہ کی عبادت میں خرچ فرماتے، یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔ دوسرا حصہ گھر والوں کے ادائے حقوق میں خرچ فرماتے تھے، مثلاً: ان سے ہنسنا، بولنا، بات کرنا، ان کے حالات کی تحقیق کرنا۔
تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات راحت و آرام کے لیے رکھتے تھے، پھر اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے، اس طرح کہ خصوصی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس وقت میں داخل ہوتے، ان خواص کے ذریعہ سے مضامین عوام تک پہنچتے۔( الشمائل للترمذی، حدیث نمبر: 319 ،ط: دارإحیاء التراث العربی)
۱۔امام ترمذی (م279ھ )نے ’’شمائل‘‘(192 )رقم الحدیث: 319 ،ط: دارإحیاء التراث العربی)میں ذکر کیا ہے۔
۲۔ علامہ ابن سعد(م230 ھ)نے’’الطبقات‘‘(1/422،ط: دار الصادر) میں ذکر کیا ہے۔
۳۔امام طبرانی (م 360ھ)نے’’ العجم الکبیر ‘‘ (22/155 )،رقم الحديث: 414 ، ط:مکتبۃ ابن تيمية) اور’’ الاحادیث الطوال ‘‘( 64،رقم الحدیث: 29 ، ط: المكتب الإسلامی) میں ذکر کیا ہے
۴۔علامہ ابوبکر آجری (م 360ھ)نے ’’الشریعۃ ‘‘ میں (3/1508)، رقم الحدیث: 1022، ط: دار الوطن) میں ذکر کیا ہے۔
۵۔ حافظ ابونعیم اصفہانی (م 430ھ) نے’’دلائل النبوۃ ‘‘( 627 )،رقم الحدیث: 565 ،ط: دار النفائس میں ذکر کیا ہے۔
۶۔ امام بیہقی(م 458ھ) نے’’ شعب الإیمان ‘‘(2/158)،رقم الحديث: 1430،ط: دار الكتب العلمية) میں ذکر کیا ہے۔
مذکورہ روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ ہیثمی (م807ھ) نے سوال کردہ روایت کے بارے میں فرمایا:اس کو امام طبرانی (م 360ھ)نے روایت کیا ہے اور اس میں روای مجہول ہے۔(۲)
علامہ ابن حجر عسقلانی (م852ھ)نے اس حدیث کو ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے اور فرمایا کہ مبہم روای کانام يزيد بن عمرو التميمي ہے اور ’’جمیع‘‘کو بعض حضرات نے ان کے ’’تشیع‘‘کی وجہ ضعیف قراردیا اور ہم نے اس حدیث کا متابع ’’مشيخة أبی علی بن شاذان‘‘(45 )، رقم الحدیث 61 ، ط: مكتبة الغرباء الأثرية) سے روایت کیا جس کی سند کے رجال اہل بیت میں سے ہیں ۔(۳)
اس تفصیل سے معلوم ہو ا کہ مذکورہ حدیث کے متعدد طرق اور میں "اھل بیت کی سند" سے مروی روایت کے بطور شاھد ہونے کی وجہ سے اس روایت کو تقویت مل جاتی ہے، اور سند میں موجود ضعف کم ہوجاتا ہے، لہذا اس کا بیان کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شمائل الترمذي: (رقم الحدیث: 319، ص: 191، ط: دار إحیاء التراث العربي)
عن الحسن بن علي قال: سألت خالي هند بن أبي هالة، وكان وصافا عن حلية رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنا أشتهي أن يصف لي منها شيئ۔۔۔۔۔۔قال الحسين: فسألت أبي عن دخول رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: كان إذا أوى إلى منزله جزّأ دخوله ثلاثة أجزاء جزءا لله وجزءا لأهله، وجزءا لنفسه. ثم جزّأ جزأه بينه وبين النّاس فيردّ ذلك بالخاصة على العامة.
رواه الطبراني في ’’الكبير‘‘(22/155)،( 414 ) والحاكم في ’’المستدرك ‘‘(3/ 640،( 6700)إلا أنه ساق سنده ولم يسق متنه وسكت عليه هو والذهبي و ابن سعد في ’’الطبقات‘‘(1/422) والبيهقي في ’’شعب الإيمان‘‘(2/158)،( 1430) و الآجري في ’’الشريعة‘‘(3/1508)،( 1022) و في ’’دلائل النبوة‘‘( 627 )،( 565 )۔
مجمع الزوائد للهيثمی: (رقم الحديث: 14026، 278/8، ط: مكتبة القدسي)
والحديث أورده الهيثمي وقال: رواه الطبراني وفيه من لم يسم.
أورده ابن عدي في ’’الكامل‘‘(2/419)، ط: دار الكتب العلمية) وقال :وروى هذا الحديث عن جميع أبو نعيم الفضل، وأبو غسان مالك بن إسماعيل وليس عندنا إلا من حديث سفيان بن وكيع عن جميع.
و هذا الحديث ذكره المزي في ’’تھذیب الکمال ‘‘ (10/468)، ط: دار الكتب العلمية) وقال:وفي إسناد حديثه بعض من لا يعرف، وحديثه من أحسن ماروي في وصف حلية رسول الله صلى الله عليه وسلم.وقال أبو عبيد الآجري: سمعت أبا داوذ وذكر حديث ابن أبي هالة، فقال: أخشى أن يكون موضوعا.
الإمتاع بالأربعين لابن حجر العسقلاني: (ص: 55، ط: دار الكتب العلمية)
هذا حديث حسن غريب رواه الترمذي عن سفيان بن وكيع عن جميع به مطولا ومعرفا واسم الرجل المبهم يزيد بن عمرو التميمي حكاه النهدي ووقع في روايته متكئا أما عبد الله فذكره ابن حبان في الثقات وجميع وثقه العجلي وقال أبو حاتم محله الصدق وضعفه آخرون من قبل التشييع وقد روينا لحديثه متابعا في مشيخة أبي علي بن شاذان بإسناد رجاله من أهل البيت
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی