عنوان: شراب اگر مچھلی ڈالنے سے سرکہ بن جائے، اس کی حلت و حرمت کا حکم(8663-No)

سوال: مفتی صاحب! کیا شراب کے اندر مچھلی ڈالنے سے سرکہ بن جاتا ہے اور اس کی حرمت ختم ہو جاتی ہے؟

جواب: واضح رہے کہ شراب میں محض مچھلی ڈالنے سے شراب کی حرمت ختم نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کو ایک خاص عمل سے گزارا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں شراب کی حقیقت و ماہیت بالکل ختم ہو جاتی ہے اور شراب سرکہ بن جاتا ہے، سرکہ استعمال کرنا نہ صرف یہ کہ حلال ہے، بلکہ اس کو حدیثِ مبارکہ میں ایک عمدہ خوراک کہا گیا ہے۔
ماہیت بدلنے سے مراد یہ ہے کہ ایک چیز کی پچھلی حقیقت ختم ہوکر نئی حقیقت ونئی ماہیت بن جائے، نہ پہلی حقیقت وماہیت باقی رہے، نہ اس کا نام باقی رہے، نہ اس کی صورت و کیفیت باقی رہے، نہ اس کے خواص و آثار و امتیازات باقی رہیں، بلکہ سب چیزیں نئی ہوجائیں، نام بھی دوسرا، صورت بھی دوسری، آثار و خواص بھی دوسرے، اثرات و علامات اور امتیازات بھی دوسرے پیدا ہوجائیں، جیسے: شراب سے سرکہ بننا۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں شراب کو خاص مچھلی کے ذریعے سرکہ بنانے کا عمل سیدنا حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف میں تعلیقا آپ کا یہ قول نقل کیا ہے:
وقال ابو الدرداء فی المری: ذبح الخمر النینان والشمس.
ترجمہ:
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے مری (اہل شام کی ایک غذا) کے بارے میں فرمایا کہ (مری میں موجود) شراب کو مچھلی اور سورج کی دھوپ نے ذبح کردیا ہے، یعنی شراب میں مچھلی ڈالنے کے بعد اسے دھوپ میں رکھنے سے شراب کی ماہیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔
علامہ حربی رحمۃ اللہ علیہ اہل شام کی اس غذا (مری) کے بارے میں فرماتے ہیں کہ مری اہل شام کی غذا کی ایک قسم ہے، جسے تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شراب میں مچھلی اور نمک ڈال کر اسے دھوپ میں رکھتے ہیں، جس کے نتیجے میں شراب کا نشہ اور اس کا کڑواپن بالکل ختم ہو جاتا ہے۔(فتح الباری:615/9)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عطاء خراسانی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے کسی نے مری کے بارے میں پوچھا کہ آیا اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں؟ ( کیونکہ اس میں شراب ملائی جاتی تھی) تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ :ذبحت الشمس سکر الخمر،فنحن ناکل لانری بہ باسا۔
ترجمہ:
شراب کے نشے کو سورج کی دھوپ کی تپش نے ختم کردیا ہے، ( اب اس میں انقلاب ماہیت کی وجہ سے شراب کی آمیزش بالکل نہ رہی) لہذا ہم اسے کھانا جائز سمجھتے ہیں، اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ محض شراب میں مچھلی ڈالنے سے شراب حلال نہیں ہوجاتی، بلکہ شراب میں مچھلی ڈالنے کے بعد کافی عرصہ تک دھوپ میں رکھنے کی وجہ سے اس کی حقیقت و ماہیت تبدیل (state change) ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ سرکہ بن جاتا ہے اور وہ شراب نہیں رہتی۔
چونکہ یہ عمل (شراب میں مچھلی ڈال کر سرکہ بنانا) ایک سائنسی طریقہ کار اور شراب سے سرکہ بننے کی سمجھ کی باریک بینی پر مبنی ہے، لہذا ناتجربہ کار شخص کے لیے یہ عمل کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فتح الباری شرح صحیح البخاری: (615/9- 617، ط: دار المعرفۃ)
قولہ:وَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فِي الْمُرْيِ ذَبَحَ الْخَمْرَ النِّينَانُ وَالشَّمْسُ قَالَ الْبَيْضَاوِيُّ ذَبَحَ بِصِيغَةِ الْفِعْلِ الْمَاضِي وَنَصْبُ رَاءِ الْخَمْرِ عَلَى أَنَّهُ الْمَفْعُولُ قَالَ وَيُرْوَى بِسُكُونِ الْمُوَحَّدَةِ عَلَى الْإِضَافَةِ وَالْخَمْرُ بِالْكَسْرِ أَيْ تَطْهِيرِهَا قُلْتُ وَالْأَوَّلُ هُوَ الْمَشْهُورُ
قَالَ الْحَرْبِيُّ هَذَا مُرْيٌ يُعْمَلُ بِالشَّامِ يُؤْخَذُ الْخَمْرُ فَيُجْعَلُ فِيهِ الْمِلْحُ وَالسَّمَكُ وَيُوضَعُ فِي الشَّمْسِ فَيَتَغَيَّرُ عَنْ طَعْمِ الْخَمْرِ وَأَخْرَجَ أَبُو بِشْرٍ الدُّولَابِيُّ فِي الْكُنَى مِنْ طَرِيقِ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ أَنَّهُ قَالَ فِي مُرْيِ النِّينَانِ غَيَّرَتْهُ الشَّمْسُ
وله طرق أخرى أخرجها الطحاوي من طريق بشر بن عبيد الله عن أبي إدريس الخولاني أن أبا الدرداء كان يأكل المري الذي يجعل فيه الخمر ويقول ذبحته الشمس والملح وأخرجه عبد الرزاق من طريق سعيد بن عبد العزيز عن عطية بن قيس قال مر رجل من أصحاب أبي الدرداء بآخر فذكر قصة في اختلافهم في المري فأتيا أبا الدرداء فسألاه فقال ذبحت خمرها الشمس والملح والحيتان ورويناه في جزء إسحاق بن الفيض من طريق عطاء الخرساني قال سئل أبو الدرداء عن أكل المري فقال ذبحت الشمس سكر الخمر فنحن نأكل لا نرى به بأسا قال أبو موسى في ذيل الغريب عبر عن قوة الملح والشمس وغلبتهما على الخمر وإزالتهما طعمها ورائحتها بالذبح وإنما ذكر النينان دون الملح لأن المقصود من ذلك يحصل بدونه ولم يرد أن النينان وحدها هي التي خللته قال وكان أبو الدرداء ممن يفتي بجواز تخليل الخمر فقال إن السمك بالآلة التي أضيفت إليه يغلب على ضراوة الخمر ويزيل شدتها والشمس تؤثر في تخليلها فتصير حلالا قال وكان أهل الريف من الشام يعجنون المري بالخمر وربما يجعلون فيه أيضا السمك الذي يربى بالملح والأبزار مما يسمونه الصحناء والقصد من المري هضم الطعام فيضيفون إليه كل ثقيف أو حريف ليزيد في جلاء المعدة واستدعاء الطعام بحرافته وكان أبو الدرداء وجماعة من الصحابة يأكلون هذا المري المعمول بالخمر وأدخله البخاري في طهارة صيد البحر يريد أن السمك طاهر حلال وأن طهارته وحله يتعدى إلى غيره كالملح حتى يصير الحرام النجس بإضافتها إليه طاهرا حلالا وهذا رأي من يجوز تحليل الخمر وهو قول أبي الدرداء وجماعة وقال بن الأثير في النهاية استعار الذبح للإحلال فكأنه يقول كما أن الذبح يحل أكل المذبوحة دون الميتة فكذلك هذه الأشياء إذا وضعت في الخمر قامت مقام الذبح فأحلتها.

بدائع الصنائع: (113/5، ط: دار الکتب العلمیۃ)
(ومنها) إذا تخللت بنفسها يحل شرب الخل بلا خلاف لقوله: - عليه الصلاة والسلام - «نعم الإدام الخل» وإنما يعرف التخلل بالتغير من المرارة إلى الحموضة بحيث لا يبقى فيها مرارة أصلا عند أبي حنيفة - رضي الله عنه - حتى لو بقي فيها بعض المرارة لا يحل وعند أبي يوسف ومحمد تصير خلا بظهور قليل الحموضة فيها لأن من أصل أبي حنيفة - رحمه الله - أن العصير من ماء العنب لا يصير خمرا إلا بعد تكامل معنى الخمرية فيه فكذا الخمر لا يصير خلا إلا بعد تكامل معنى الخلية فيه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 4753 Oct 26, 2021
sharab agar machle / fish dalne / dalnay se / say sirka ban jai,is ki hilat wa hurmat ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Halaal & Haram In Eatables

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.