سوال:
مفتی صاحب ! اگر عورت کی ہڈی میں فیکچر ہو جائے، تو کیا مرد پہلوان سے صحیح کرواسکتی ہے؟ اسی طرح ہرنیہ کا آپریشن مرد ڈاکٹر سے کرواسکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ خواتین کے علاج و معالجہ اور آپریشن وغیرہ کے لیے اگر کوئی خاتون ڈاکٹر میسر نہ ہو، یا میسر تو ہو، لیکن وہ اس علاج کی ماہر نہ ہو، تو ایسی مجبوی کی صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج اور آپریشن وغیرہ کروانے کی گنجائش ہے، تاہم اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ طبیب کے سامنے صرف انہی اعضاء کو کھولا جائے، جن کا کھلا رکھنا علاج کے لیے ناگزیر ہو، نیز مرد طبیب کو بھی چاہیے کہ وہ علاج کی غرض سے بقدر ضرورت ہی نامحرم عورت کے جسم کو دیکھے اور چھوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الھندية: (330/5، ط: دار الفکر)
"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان".
الدر المختار: (370/6، ط: دار الفکر)
"(ينظر ) الطبيب ( إلى موضع مرضها بقدر الضرورة) إذ الضرورات تتقدر بقدرها".
رد المحتار: (371/6، ط: دار الفکر)
"وإن كان في موضع الفرج فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو صيبها وجع لا تحتمله يستر منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح اھ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی