عنوان: زکوۃ کی رقم سے بہن اور اس کے بچوں کو کھانا کھلانا اور ان کی دیگر ضروریات پوری کرنا(8702-No)

سوال: میرا دوست اپنی بیوہ بہن کی مدد اپنی زکوۃ سے کرتا ہے، کچھ رقم نقد دے دیتا ہے، اور کبھی ان کے گھر جا کر کھانا کھلا دیتا ہے، بہن کے بچوں کی چھوٹی موٹی خواہش بھی اسی زکوۃ کے پیسوں سے پوری کرتا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا میرے دوست کا یہ عمل درست ہے؟ میرا دوست امیر آدمی نہیں ہے، بلکہ وہ صرف اپنی بیوی کے زیورات کی وجہ سے زکوۃ نکالتا ہے، اس کی آمدنی بہت کم ہے، جس کی وجہ سے وہ خود بھی زکوۃ لیتا ہے۔
تنقیح
محترم! آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ بچوں کی چھوٹی موٹی ضروریات پوری کرنے سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اور ان خواہشات کو کس طرح پورا کیا جاتا ہے؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جائے گا۔
جزاک اللہ خیرا

جواب: (1) واضح رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ زکوة کی رقم مستحق کو تملیکا (مالک بنا کر) دی جائے، تاکہ وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کر سکے، لہذا اگر مستحق زکوٰۃ کو کھانے کا مالک بنا کر اس کے حوالے کردیا جائے، تو زکوۃ ادا ہو جائے گی۔
(2) اگر نابالغ بچہ کا باپ مالدار ہے، تو نابالغ بچہ کو زکوۃ دینا درست نہیں ہے، اور اگر باپ زکوۃ کا مستحق ہے، تو ایسا نابالغ بچہ جو سمجھ دار ہو اور مال کی پہچان رکھتا ہو، اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں، بشرطیکہ زکوة میں دی جانے والی اشیاء اس مستحق بچے کو مالک بنا کردی جائیں، تاکہ وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرف کر سکے۔
ذکر کردہ صورت میں بچے کو کپڑے، کھلونے اور آئسکریم دینے کی صورت میں تملیک پائی جا رہی ہے، لہذا سمجھ دار بچے کو مذکورہ اشیاء دینے کی صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی، البتہ پکنک اور سیر وتفریح پر خرچ کی جانے والی رقم زکوٰۃ میں شمار نہیں ہوگی، کیونکہ اس صورت میں مالک بنانے کی شرط نہیں پائی جارہی ہے، البتہ اگر آپ زکوٰۃ کی رقم مستحقین کے حوالے کردیں، اور وہ اس رقم کو سیر وتفریح کے مصرف میں استعمال کر لیں، تو اس صورت میں زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (257/2، ط: دار الفکر)
فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم.

بدائع الصنائع: (53/2، ط: دار الكتب العلمية)
أن الزكاة عبادة عندنا والعبادة لا تتأدى إلا باختيار من عليه إما بمباشرته بنفسه، أو بأمره، أو إنابته غيره فيقوم النائب مقامه فيصير مؤديا بيد النائب.

و فیہ ایضاً: (49/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
"ومنها: أن لا تكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكاً من الفقير من كل وجه، بل يكون صرفاً إلى نفسه من وجه، وعلى هذا يخرج الدفع إلى الوالدين وإن علوا والمولودين وإن سفلوا؛ لأن أحدهما ينتفع بمال الآخر".

الهندية: (189/1، ط: دار الفکر)
"ولايدفع إلى امرأته للاشتراك في المنافع عادة، ولاتدفع المرأة إلى زوجها عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، كذا في الهداية".

البحر الرائق: (246/2)
(لا أبي) غني یملک نصابًا وعبدہ وطفلہ (کنز) وفي البحر: وإنما منع من الدفع لطفل الغني لأنہ یعدغنیًا بغناء أبیہ وہو یفید أن الدفع لولد الغنیۃ جائز إذ لا یعد غنیا بغناء أمہ ولو لم یکن لہ أب۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 934 Nov 03, 2021

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.