عنوان: گناہوں پر توبہ واستغفار کرنے کا صحیح طریقہ، نیز توبہ و استغفار سے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کی معافی کی تفصیل(8714-No)

سوال: مفتی صاحب ! استغفار کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے، کیا زبان سے استغفار کرتے رہنے سے گناہ کم ہو جائیں گے؟

جواب: واضح رہے کہ گناہوں پر توبہ و استغفار کرنے کا درست طریقہ یہ ہے کہ آدمی زبان سے اپنے گناہوں پر استغفار کرے، اور دل میں اس گناہ پر سخت نادم ہو، اور آئندہ اپنے آپ کو اس گناہ سے بچانے کا پختہ عزم کرے، لہذا اگر ان شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے سچی توبہ کی جائے، تو اس سے انسان کے صغیرہ اور کبیرہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
البتہ وہ فرائض وواجبات جو انسان کے ذمہ ہیں، مثلاً: نماز، روزہ، زکوۃ اور حج وغیرہ، محض توبہ واستغفار سے معاف نہیں ہوں گے، بلکہ ان کی ادائیگی ذمہ میں باقی رہے گی۔
مزید یہ کہ حقوق العباد سے متعلق گناہ کی معافی کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اگر کسی صاحب حق کا حق اس کے ذمہ ہو، تو اس پر لازم ہے کہ صاحبِ حق کو اس کا حق ادا کرے یا اس سے معاف کروالے، محض استغفار سے یہ گناہ معاف نہیں ہوتا ہے۔
تفسیر بیضاوی میں قاضی بیضاوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ایک مقولہ منسوب کیا ہے، جس میں توبہ واستغفار کی اس تفصیل کو جمع کیا گیا ہے، چنانچہ روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ توبہ و استغفار کس چیز کا نام ہے؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ توبہ و استغفار چھ چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے:
1) اپنے گزشتہ برے اعمال پر ندامت و افسوس ہونا۔
2) جو فرائض و واجبات چھوٹ گئے ہوں، ان کی قضا کرنا۔
3) اگر کسی کا کوئی مالی حق ذمہ میں ہو، تو اس کی ادائیگی کرنا۔
4) اگر کسی کو اپنی زبان یا ہاتھ سے تکلیف دی ہو، تو اس سے معافی مانگنا۔
5) آئندہ اس گناہ سے دور رہنے کا پختہ عزم و ارادہ کرنا۔
6) خود کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول کردینا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (التحریم، الآیۃ: 8)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌo

تفسیر ابن کثیر: (188/8، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ثُمَّ قَالَ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا} أَيْ: تَوْبَةً صَادِقَةً جَازِمَةً، تَمْحُو مَا قَبْلَهَا مِنَ السَّيِّئَاتِ وَتَلُمُّ شَعَثَ التَّائِبِ وَتَجْمَعُهُ، وَتَكُفُّهُ عَمَّا كَانَ يَتَعَاطَاهُ مِنَ الدَّنَاءَاتِ.
قَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: حَدَّثَنَا ابْنُ مُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاك بْنِ حَرب: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ يَخْطُبُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا} قَالَ: يُذْنِبُ الذَّنْبَ ثُمَّ لَا يَرْجِعُ فِيهِ.
وَقَالَ الثَّوْرِيُّ، عَنْ سِماك، عَنِ النُّعْمَانِ، عَنْ عُمَرَ قَالَ: التَّوْبَةُ النَّصُوحُ: أَنْ يَتُوبَ مِنَ الذَّنْبِ ثُمَّ لَا يَعُودُ فِيهِ، أَوْ لَا يَعُودُ فِيهِ.

تفسیر البیضاوی: (225/5، ط: دار احیاء التراث العربی)
سئل علي رضي الله تعالى عنه عن التوبة فقال:يجمعها ستة أشياء على الماضي من الذنوب الندامة، وللفرائض الإعادة، ورد المظالم، واستحلال الخصوم، وأن تعزم على أن لا تعود، وأن تربي نفسك في طاعة الله كما ربيتها في المعصية.

شرح النووی علی مسلم: (باب التوبۃ، 25/17، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال أصحابنا وغيرهم من العلماء للتوبة ثلاثة شروط أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما أن لايعود إلى مثلها أبدا فإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فلها شرط رابع وهو رد الظلامة إلى صاحبها أو تحصيل البراءة منه

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 874 Nov 05, 2021

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Azkaar & Supplications

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.