سوال:
مکان میں بھائی کے ساتھ 50 فیصد شراکت ہے، مکان کی قیمت تقریباً ساٹھ لاکھ تک ہے، اس وقت وہ مجھے نیچے والا پورشن پچیس لاکھ کا دے رہے ہیں، ابھی میرے پاس دینے کو ساڑھے سترہ لاکھ روپے ہیں، بقایا ساڑھے سات لاکھ روپے چار سال میں ادا کرنے ہیں، بھائی نے کہا ہے کہ جب تک مکمل پیسے ادا نہیں کردیتے، نیچے والے پورشن کا کرایہ فیصد کے اعتبار سے دیتے رہنا۔
کیا یہ معاملہ درست ہے؟ نیز کیا فیصد کے اعتبار سے کرایہ لینا اور دینا جائز ہے، سود کے زمرے میں تو نہیں آئے گا؟
جواب: ایک ہی سودے میں خریداری اور کرایہ داری کا معاملہ شرعا درست نہیں، لہذا اس پورشن میں اگر خرید و فروخت کا معاملہ کیا جائے گا، تو پھر اسی پورشن کو کرایہ پر نہیں دیا جاسکتا، بلکہ بیچنے والے کو صرف اپنی بقیہ قیمت وصول کرنے کا حق حاصل ہوگا، لہذا پورشن کو فروخت کرنے کے بعد اس کا کرایہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ کا بھائی اپنا پورشن باہمی رضامندی سے طے شدہ مدت تک کیلئے کرایہ پر دے دے، پھر بعد میں جب وہ بیچنا چاہے، تو اس وقت باہمی رضامندی سے اس کی قیمت طے کرکے وہ پورشن آپ کو فروخت کردے، تو یہ معاملہ شرعا درست ہوجائے گا۔
اس کی دوسری جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ بھائی سے پورشن کا کچھ حصہ خرید لیں، تو وہ پورشن آپ دونوں کی مشترکہ ملکیت میں آجائے گا، پھر آپ اپنے بھائی کا حصہ استعمال کرنے کی وجہ سے ماہانہ کرایہ طے کرلیں، اور ماہانہ بنیاد پر طے شدہ کرایہ دیتے رہیں، نیز بھائی کے حصے کے برابر یونٹس بنالیں (مثال کے طور پر اگر اس کا حصہ چالیس فیصد ہے، تو چار یونٹس بنالیں، ہر یونٹ دس فیصد حصے کی نمائندگی کرے گا) اور شریک (بھائی) کے ساتھ وعدہ کرلیں کہ ہر ماہ (یا جو بھی مدت باہمی طور پر طے ہوجائے) کے بعد ایک یونٹ آپ خرید لیں گے، یوں ایک یونٹ خریدنے سے شریک کا دس فیصد حصہ کم ہوجائے گا اور آپ کا حصہ دس فیصد بڑھ جائے گا، نیز اسی حساب سے کرایہ بھی کم ہوجائے گا۔
اس طرح کرتے کرتے آخر میں شریک کا حصہ بالکل ختم ہوجائے گا، اور پورشن مکمل طور پر آپ کی ملکیت میں آجائے گا۔
اس طریقہ کار کو فقہی اصطلاح میں "شرکت متناقصہ" کہا جاتا ہے، اس میں اس بات کا لحاظ ضروری ہے کہ پورشن کے حصے کی خریداری اور کرایہ داری کا معاہدہ الگ الگ کیا جائے، ایک سودے میں دونوں معاملے جمع کرنا یا ایک کو دوسرے کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقہ البیوع: (505/1)
ومن قبیل زیادۃ الشرط فی البیع ما یسمی "صفقۃ فی صفقۃ"، وھو أن یشترط فی العقد عقد آخر.... والأصل فی ذلک ما روی عن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قال:
"نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن صفقتين فی صفقۃ واحدۃ"۔۔۔۔۔۔۔۔
وعلی أساس ھذا الحدیث ذھب جمھور العلماء الی أن اشتراط صفقۃ فی صفقۃ أخری لایجوز. قال ابن قدامۃ رحمہ اللہ تعالی: "وھکذا کل ما فی معنی ھذا، مثل أن یقول: بعتک داری ھذہ علی أن أبیعک داری الأخری بکذا أو علی أن تبیعنی دارک، أو علی أن أوجرک أو علی أن توجرنی کذا..."
و فیہ أیضا: (526/1)
أما اذا آجر المؤجر عینا ولم یکن البیع مشروطا فی عقد الإجارۃ ولکن وعد المؤجر بالبیع منفصلا عن العقد فینبغی الجواز بشرط أن تجری علیہ جمیع أحکام الإجارۃ طوال المدۃ۔۔۔
المعاییر الشرعیۃ: (الشرکۃ، المشارکۃ و الشرکات الحدیثیۃ، المشارکۃ المتناقصۃ)
5/7 یجوز اِصدار احدالشریکین وعدا ملزما یحق بموجبہ لشریکہ تملک حصتہ تدریجیا من خلال عقد بیع عند الشراء وبحسب القیمۃ السوقیۃ فی کل حین او بالقیمۃ التی یتفق علیھا عند الشراء.ولا یجوز اشتراط البیع بالقیمۃ الاسمیۃ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی