عنوان: پوری قیمت ادا کئے بغیر پراپرٹی خرید کر اسے آگے کسی ایجنٹ وغیرہ کو فروخت کرنے کا شرعی حکم(8760-No)

سوال: السلام علیکم ،حضرت مفتی صاحب !
مندرجہ ذیل معاملے میں آپ حضرات کی رہنمائی درکار ہے۔
ایک پلاٹ بیچنے والے سے ایک ایجینٹ کہتا ہے کہ ایک خریدار ہے، جو اتنے میں خریدنے کو تیار ہے، جبکہ اصل میں اس وقت کوئی خریدار نہیں ہوتا، پھر جوڑ توڑ کر کے بیچنے والے کو ایک قیمت مقرر کر کے تیار کر لیتا ہے۔ ٪10 ادا کر کے مالکانہ حقوق لے لیتا ہے، جبکہ اصل میں فی الحال کوئی خریدار نہیں ہوتا۔
1) کیا اس طرح سے کام کرنا ٹھیک ہے؟
2) کیا اس کام کو بغیر لکھے بھی کیا جا سکتا ہے؟
3) اگر ایجینٹ کے پاس باقی کے ٪90 ہی نہیں ہوں، تو کیا اس طرح سے کام کر سکتا ہے؟
4) اگر تحریری معاہدہ اس طرح سے بنایا جائے کہ خریدار اس کو آگے کسی کو بیچ سکتا ہے، کیا یہ معاہدہ ٹھیک ہے؟
5) ایجینٹ اسی کو پھر آگے اشتہار کے ذریعے بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟
6) ایجینٹ یہ سودا آگے کسی اور ایجینٹ کو بیچ دیتا ہے ٪10 مع منافع کے ساتھ، جبکہ اسکے پاس بھی باقی ادائیگی کا مال نہیں ہوتا، کیا یہ ٹھیک ہے؟
7) اسی طرح تیسرا اور چوتھا ایجینٹ بھی آ جاتا ہے، کیا ایجینٹ مکمل خرید کی استطاعت کے بغیر یہ کام کر سکتا ہے؟
براہ کرم ان سوالات کے جوابات عنایت فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ کوئی بھی چیز خریدنے کیلئے خریدار کے پاس اس چیز کی مالیت کا موجود ہونا شرعا ضروری نہیں ہے، بلکہ جس طرح نقد (cash) خریداری جائز ہے، اسی طرح ادھار (credit) اور قسطوں (Instalments) پر بھی (جرمانہ کی شرط لگائے بغیر) خرید وفروخت شرعا درست ہے، لہذا :
1-3۔ اگر ایجنٹ کے پاس نوے فیصد (٪90) قیمت نہ ہو، تو صرف دس فیصد (٪10) قیمت ادا کرکے باقی نوے فیصد قیمت متعینہ مدت کیلئے ادھار یا قسطوں کی صورت میں ادائیگی کے عوض، باہمی رضامندی سے خرید و فروخت کا معاملہ کرنا شرعا جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کوئی اور خلاف شریعت شرط شامل نہ ہو، نیز جھوٹ اور دھوکہ دہی سے بچنا بھی شرعا ضروری ہے۔
3- شریعت مطہرہ نے اپنے معاملات کو حتی الامکان صاف رکھنے اور ایسے مالی معاملات کو تحریر میں لانے کی تاکید کی ہے، اس لئے خرید وفروخت کے ایسے معاملہ کو تحریر میں لانا چاہئیے، تاکہ بعدمیں کوئی نزاع کی نوبت نہ آئے، البتہ اگر کوئی شخص خرید وفروخت کے معاملہ کو تحریر میں نہیں لاتا، تو بذات خود اس معاملہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بلکہ معاملہ باہمی رضامندی سے درست ہوجائے گا، البتہ اگر اس سلسلے میں کوئی ملکی جائز قانون ہو، تو اس پر عمل کرنا بھی شرعا ضروری ہوگا۔
4- شرعی طور پر جب باہمی رضامندی سے خرید و فروخت کا معاملہ مکمل ہوجائے، تو خریدار اس پلاٹ کا مالک بن جائے گا، پھر اگر وہ چاہے تو اسے آگے کسی اور گاہک/ایجنٹ کو فروخت کرسکتا ہے، لہذا تحریری معاہدے میں اس شق کو لکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
5- اپنی مملوکہ چیز کو فروخت کرنے کے سلسلے میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے تشہیر کرنا بھی جائز ہے۔
6- درست ہے۔
7- درست ہے، بشرطیکہ تمام معاملات شفاف ہوں، اور آگے فروخت کرتے وقت ہر خریدار کی پلاٹ پر ملکیت اور نفع و نقصان کا اس کے ذمہ ہونا واضح ہو، اور کوئی خلاف شریعت شرط وغیرہ نہ رکھی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار :(مطلب: في الفرق بین الأثمان و المبیعات، 52/7، ط: زکریا)
وصح بثمن حال وہو الأصل ومؤجل إلی معلوم؛ لئلا یفضي إلی النزاع .

شرح المجلۃ: (128/1، رقم المادۃ: 253)
للمشتري أن یبیع المبیع من آخر قبل قبضہ إن کان عقاراً لا یخشی ہلاکہ، وکما یجوز بیع العقار قبل قبضہ.

تکملۃ فتح الملہم: (351/1، مکتبۃ دار العلوم کراتشی)
یمتنع البیع قبل القبض فی سائر المنقولات، ویجوز في العقار الذي لا یخشی ہلاکہ.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 521 Nov 12, 2021
pori qemat ada kiye baghair property khareed kar usey agey kisi agent waghaira ko farokht karne ka shari hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.