سوال:
حضرت ! اون (on) پر گاڑی لینا جائز ہے یا نہیں؟
جواب: گاڑی کی خریداری کرتے وقت اگر گاہک گاڑی کا فوری قبضہ چاہتا ہو تو ایسی صورت میں مارکیٹ میں عموما گاڑی کی قیمت اس گاڑی کے بنسبت زیادہ ہوتی ہے، جو بکنگ کے کچھ عرصہ بعد وصول کی جائے۔ فوری طور پر گاڑی وصول کرنے کیلئے گاہک سے گاڑی کی عام قیمت سے جو اضافی رقم لی جاتی ہے٬ اسے "اون منی" (On money) کہا جاتا ہے اور اس معاملے کو "اون(On) پر گاڑی لینا" کہا جاتا ہے۔
شرعی اعتبار سے فروخت کرنے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی چیز کی کسی وجہ سے زیادہ یا کم قیمت لگائے اور گاہک کو اس قیمت کے مطابق چیز لینے یا نہ لینے کا اختیار ہوتا ہے، لہذا اگر گاہک کے ساتھ شروع میں طے کر لیا جائے کہ فوری پر گاڑی وصول کرنے کی صورت میں اون منی(On money) ملاکر اس کی قیمت اتنی ہوگی اور یہ قیمت اسی وقت باہمی رضامندی سے متعین کرکے طے کرلی جائے تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ گاڑی بیچنے والے کے قبضہ (Possession) میں آچکی ہو۔
اور اگر گاڑی خریدتے وقت یہ طے ہوا ہو کہ گاڑی فوری نہیں ملے گی، بلکہ کچھ عرصہ( مثلا: دو تین مہینے) بعد ملے گی٬ اس پر سودا طے ہوگیا٬ بعد میں مقررہ مدت سے پہلے گاڑی لینے کی وجہ سے اضافی رقم (On money) کا لین دین جائز نہیں ہوگا٬ اس سے اجتناب لازم ہے۔
واضح رہے کہ اگر گاڑی فروخت کرنے والا خود گاڑی کا مالک نہ ہو٬ بلکہ گاڑیوں والی کسی کمپنی کا صرف ڈیلر/ ایجنٹ ہو تو اس صورت میں گاہک سے "اون منی" (On money) لینے یا نہ لینے کے سلسلے میں وہ متعلقہ کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کا پابند ہوگا٬ چنانچہ اگر کمپنی کی طرف سے اپنے ڈیلر کو اون (On) لینے سے منع کیا گیا ہو تو ڈیلر پر اس معاہدہ کی پابندی شرعا بھی لازم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (كتاب البيوع، رقم الحديث: 1331)
وقد فسر بعض أهل العلم، قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة و بنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعتين، فإن فارقه على أحدهما فلا بأس، إذا كانت العقدة على أحد منهما۔
فتح القدیر: (247/6، ط: دار الفكر)
البيع لغة: مبادلة المال بالمال، وكذا في الشرع، لكن زيد فيه قيد التراضي
المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا أو قال إلی شہر بکذا أو إلی شہرین بکذا فہو فاسد؛ لأنہ لم یعاطہ علی ثمن معلوم ولنہی النبی - صلی اللہ علیہ وسلم - عن شرطین فی بیع وہذا ہو تفسیر الشرطین فی بیع ومطلق النہی یوجب الفساد فی العقود الشرعیة وہذا إذا افترقا علی ہذا فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ فہو جائز؛ لأنہما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد
سنن الترمذي: (باب ما ذکر عن النبي في الصلح بین الناس٬ رقم الحدیث: 1352)
الصلح جائز بین المسلمین، إلا صلحا حرم حلالاً، أو أحل حلالاً، المسلمون علی شروطہم، إلا شرطاً حرم حلالاً، أو أحل حراماً
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی