سوال:
آج کل مختلف کمپنیاں کاروبار کے مواقع پیش کر رہی ہیں، جس میں کلائنٹ کو مکمل چارجز ایڈوانس ادا کر کے شاپ، سویٹ یا کارپوریٹ آفس خریدنا پڑتا ہے۔
کمپنی ایک معاہدے کے ذریعے 3 سے 4 سالوں میں پروجیکٹ کی تکمیل تک 25 سے 30 فیصد کے سالانہ اضافے کے ساتھ واپس خریدنے کی پیشکش کرتی ہے، پراجیکٹ کے شروع ہونے کے بعد اس کا انتظام اسی کمپنی کے ذریعے نئے شرائط و ضوابط پر کیا جائے گا۔
کیا ایسی سرمایہ کاری جائز ہے یا نہیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں کمپنی کم قیمت میں پراپرٹی فروخت کرکے پھر زیادہ قیمت میں واپس خرید کر اپنے اوپر زیادہ قیمت لازم کر رہی ہے٬ یہاں حقیقتاً خرید و فروخت مقصود نہیں ہے، بلکہ قرض پر خریدار کو اضافی رقم دینا مقصود ہے٬ یہ صورت فقہی اصطلاح میں "شراء ما باع باکثر مما باع بعد نقد الثمن الاول" کہلاتی ہے٬ یہ سود کے لین دین کا ایک حیلہ ہے٬ لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔
اس کی جائز متبادل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ دکان/آفس فروخت کرتے وقت گاہک سے دوبارہ خریدنے کا معاہدہ (Agreement) نہ کیا جائے٬ معاہدہ کا حصہ بنائے بغیر بعد میں اگر کبھی واپس خریدنے کا ارادہ ہو٬ تو اس وقت اس کی جو بازاری قیمت ہو یا فریقین جس قیمت پر اتفاق کرلیں٬ اس کے مطابق واپس خرید لیا جائے٬ تو یہ جائز ہے۔
نیز بعد میں خریداری سے متعلق شروع میں اس کا وعدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (273/5، ط: دار الفکر)
تفسیرھا ان یاتی الرجل المحتاج الی اٰخر ویستقرضہ عشرۃ دراھم ولا یرغب المقرض فی الاقراض طمعا فی فضل لا ینالہ بالقرض فیقول لا اقرضک ولکن ابیعک ھذا الثوب ان شئت باثنی عشر درھماً وقیمتہ فی السوق عشرۃ، لیبیعہ فی السوق بعشرۃ، فیرضی بہ المستقرض فیبیعہ کذالک فیحصل لرب الثوب درھمان وللمشتری قرض عشرۃ
کتاب الحجۃ: (747/1، ط: عالم الکتب)
ونکرہ منہ خصلۃ أخری أن یشتری السلعۃ بمثل ذلک الثمن إلی أکثر من ذلک الاجل؛لأنہ قد یشتریھا حینئذ باقل مما باعھا بہ فرجعت إلیہ سلعتہ واستقصر الأجل، وکذلک بلغنا عن عائشۃ أم المومنین رضی اللّٰہ عنہا
فقہ البیوع: (581/1، ط: معارف القران)
ومن ابتاع سلعۃ علی ان البائع متی رد الثمن فالسلعۃ لہ، لم یجز لانہ بیع وسلف۔قال سحنون:بل سلف جر منفعۃ۔اھ
ولکن اذا وقع البیع مطلقا عن ھذاالشرط، ثم وعد المشتری البائع بانہ سوف یبیعہ ان جاءہ بالثمن ،فان ھذا الوعد صحیح لازم علی البائع
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 6/2145
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی