سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں آپ سے ایک مسئلہ پر رہنمائی چاہتا ہوں، میرے والد نے اپنی زندگی میں اپنا مکان بیچ کر تین بیٹوں اور چار بیٹیوں میں تقسیم کردیا تھا، کچھ رقم اس میں سے اپنے لیے بھی رکھی تھی، جس سے ایک فلیٹ خریدا تھا، جس میں والد صاحب میری فیملی کے ساتھ رہائس کیے ہوئے تھے۔
والد صاحب یہ فلیٹ میرے نام کروانا چاہتے تھے، مگر ہائی کورٹ کے قانون کی وجہ سے وہ میرے نام رجسٹری کرانے سے قاصر تھے، مکان نام کرانے کی بہت کوشش کی، مگر مکان میرے نام نہیں ہوسکا، جس کی وجہ سے زندگی میں ہی انہوں نے ایک فتوی لیا اور اسی فتوی کی رو سے ایک وصیت نامہ لکھا، جس میں انہوں نے صاف طور پر یہ لکھا کہ اپنی جائیداد اپنے بچوں میں شرعی طور پر تقسیم کر چکا ہوں، اب جبکہ میرا جینا مرنا ۔۔فلاں بیٹے۔۔کے ساتھ ہے اور اسی نے مجھے سنبھالا ہوا ہے، تو میں زندگی میں ہی یہ فلیٹ ۔۔فلاں بیٹے۔۔کو ہبہ کرنا چاہتا ہوں، اس میں میرے مرنے کے بعد کسی اولاد کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔
اب جبکہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، تو بقیہ بہن بھائی اس فلیٹ سے اپنا حصہ مانگ رہے ہیں، جبکہ والد صاحب نے سب کو حصہ دے دیا تھا، اس فلیٹ کی خریداری میں گیارہ لاکھ والد صاحب نے میرے بھی ڈالے تھے۔
براہ کرم آپ رہنمائی فرمائیں کہ کیا اس فلیٹ میں بقیہ بچوں کا بھی حصہ ہے یا یہ فلیٹ صرف اسی نامزد بیٹےکو ملے گا؟
تنقیح:
محترم! آپ نے اس سوال میں یہ تحریر کیا ہے کہ آپ کے والد صاحب زندگی میں اپنا فلیٹ آپ کے نام کرنا چاہتے تھے، لیکن قانونی مجبوریوں کی وجہ سے نہ کر سکے، تو انہوں نے ایک فتویٰ حاصل کیا تھا اور اس کے مطابق انہوں ایک وصیت نامہ لکھا تھا، جس میں انہوں نے فلیٹ آپ کو ھبہ کرنے کی چاہت کا اظہار کیا ہے، برائے کرم وہ فتویٰ اور وصیت نامہ دونوں ہمیں ارسال فرمادیں، تاکہ ان کو سامنے رکھ کر آپ کے سوال پر غور کیا جا سکے۔
نیز یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ اس فلیٹ کی خریداری میں جو گیارہ لاکھ روپے آپ کے والد صاحب نے شامل کیے تھے، وہ رقم کس کی تھی؟ اگر آپ کی تھی تو آپ نے یہ پیسے والد صاحب کو کس مد میں دیے تھے؟ آیا ان کے ساتھ فلیٹ شراکت داری حاصل کرنے کے لیے دیے تھے، یا قرض کے طور پر دیے تھے، یا ویسے ہی والد صاحب کو بطور تعاون (گفٹ) کے دیے تھے؟
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
جواب تنقیح:
وصیت نامہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہ پورشن میری زندگی میں میرا ہے، میرے مرنے کے بعد اس پورشن کا کلی مالک فلاں بیٹا ہوگا، اس سے پہلے اپنا مکان A-329، بلاک 5 فروخت کرکے سب بچوں کو بانٹ چکا ہوں، اس پورشن میں میرے دو بیٹوں اور چار بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
میں نے اس فلیٹ کی خریداری میں گیارہ لاکھ بطورِ قرض دیے تھے۔
جواب: جواب سے قبل دو باتیں بطور تمہید سمجھ لینى چاہئیں:
1- واضح رہے کہ زندگی میں والد اپنی اولاد کو جو جائیداد تقسیم کر کے دیتا ہے، وہ ہبہ (Gift) کہلاتی ہے اور زندگى کے بعد اولاد کو جو جائیداد میں سے حصہ ملتا ہے، وہ وراثت کہلاتا ہے، شریعت کی طرف سے میراث کے حصے متعین ہوتے ہیں، اور اس میں رد و بدل نہیں کی جا سکتی، لہذا اگر زندگی میں اولاد کو کچھ جائیداد وغیرہ دے دی ہو، تو اس کے دینے سے وہ میراث سے محروم نہیں ہوں گے، بلکہ والد کی وفات کے بعد انہیں شریعت کى طرف سے بطور وراثت حصہ ملے گا۔
2- وارث کے لیے وصیت کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے، لہذا ورثاء پر ایسی وصیت پر عمل کرنا لازم نہیں ہے۔
ہاں! اگر تمام ورثاء بخوشی اس وصیت پر عمل کرنے پر آمادہ ہوں، اور تمام ورثاء بالغ ہوں، تو اس کی اجازت ہے، ورنہ ہر وارث کو اس کا وہی حصہ دینا ضروری ہے، جو شریعت نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں سوال، تنقیح کے جواب اور مستفتى کى طرف سے بھیحے گئے فتوے اور وصیت نامہ کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1- آپ کے والد صاحب نے زندگی میں جو جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کی تھی، وہ ہبہ (Gift) تھی، اس کی وجہ سے وہ والد صاحب کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں وراثت سے محروم نہیں ہوں گے۔
2- شرعاً ہبہ (Gift) کے لیے ضروری ہے کہ وہ مالک بنا کر دیا جائے اور جس کو ہبہ کیا جارہا ہے، وہ اس پر مالکانہ قبضہ بھی کر لے، تب ہبہ تام (مکمل) ہوتا ہے، اس اعتبار سے آپ کے والد صاحب نے جو فتویٰ حاصل کیا ہے، اس میں اور وصیت نامہ کے مضمون میں ان الفاظ "میری زندگی تک یہ پورشن میرا ہے" سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ فلیٹ انہوں اپنی وفات تک اپنی ملکیت میں ہی رکھا تھا، اسے آپ کو ہبہ نہیں کیا تھا، جبکہ وصیت نامہ کے ان الفاظ "میرے مرنے کے بعد اس پورشن کا کلی مالک خلیل احمد ہوگا" سے انہوں نے آپ کے حق میں وصیت کی تھی، جبکہ ہم نمبر 1 میں یہ بات ذکر کر چکے ہیں کہ وارث کے حق میں شرعاً وصیت معتبر نہیں ہوتی، لہذا اس فتوے اور وصیت نامہ سے آپ کے لیے ہبہ کا ثبوت نہیں ہوتا ہے۔
3- والد صاحب کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں سے ان کی تجہیز وتکفین کے اخراجات الگ کیے جائیں گے، ان کے ذمہ جو مالی واجبات (قرض وغیرہ) ہوں، تو ان کی ادائیگی کی جائے گی، اگر انہوں نے ورثاء کے علاوہ کوئی جائز وصیت کی ہو، تو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی (1/3) مال تک اس وصیت کو پورا کیاجائے گا، اس کے بعد ان کا تمام ترکہ (بشمول اس فلیٹ کے جس میں آپ مقیم ہیں) سارے ورثاء میں شریعت کے اصولوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
4- فلیٹ کی خریداری میں بقول آپ کے گیارہ لاکھ روپے آپ نے بطورِ قرض والد صاحب کو دیے تھے، اگر اس قرض پر آپ کے پاس دو گواہ ہوں، یا ورثاء آپ کے قرض کی تصدیق کر لیں، تو ایسی صورت میں آپ مالِ میراث میں سے اپنا قرض وصول کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (باب ما جاء في الوصیۃ للوارث، رقم الحدیث: 2120، ط: دار الغرب الإسلامی)
حدثنا علي بن حجر، وهناد، قالا: حدثنا إسماعيل بن عياش، قال: حدثنا شرحبيل بن مسلم الخولاني، عن أبي أمامة الباهلي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول في خطبته عام حجة الوداع: "إن الله تبارك وتعالى قد أعطى لكل ذي حق حقه، فلا وصية لوارث، الولد للفراش...الحدیث".
السنن الكبرى للبيهقي: (باب نسخ الوصية للوالدين، رقم الحدیث: 12535، ط: دار الكتب العلمية)
أخبرناه أبو بكر الأصبهاني , أنا علي بن عمر الحافظ , ثنا أبو عبد الله عبيد الله بن عبد الله بن عبد الصمد بن المهتدي بالله، ثنا أبو علاثة محمد بن عمرو بن خالد، ثنا أبي , ثنا يونس بن راشد , عن عطاء الخراساني , عن عكرمة , عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تجوز وصية لوارث، إلا أن يشاء الورثة "، وقال البیھقی: عطاء الخراساني غير قوي.
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری: (باب لا وصیۃ للوارث، 55/14، ط: دار الکتب العلمیۃ)
"وقال المنذري: إنما یبطل الوصیۃ للوارث في قول أکثر أہل العلم من أجل حقوق سائر الورثۃ، فإذا أجازوہا جازت، کما إذا أجازوا الزیادۃ علی الثلث".
الفتاوى الهندية: (الباب الأول تفسير الهبة، 374/3، ط: دار الفکر)
"أما تفسيرها شرعا فهي تمليك عين بلا عوض، كذا في الكنز. وأما ركنها فقول الواهب: وهبت؛ لأنه تمليك وإنما يتم بالمالك وحده، والقبول شرط ثبوت الملك للموهوب له حتى لو حلف أن لا يهب فوهب ولم يقبل الآخر حنث، كذا في محيط السرخسي.
وأما شرائطها فأنواع يرجع بعضها إلى نفس الركن وبعضها يرجع إلى الواهب وبعضها يرجع إلى الموهوب، أما ما يرجع إلى نفس الركن فهو أن لا يكون معلقا بما له خطر الوجود والعدم من دخول زيد وقدوم خالد ونحو ذلك، ولا مضافا إلى وقت بأن يقول: وهبت هذا الشيء منك غدا أو رأس شهر كذا في البدائع".
الدر المختار مع رد المحتار: (553/5، ط: دار الفکر)
"كذا إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه فيحلف على العلم".
الفتاویٰ الھندیۃ: (407/3، ط: دار الفکر)
"ولو أن رجلا قدم رجلا إلى القاضي وقال: إن أبا هذا قد مات ولي عليه ألف درهم دين فإنه ينبغي للقاضي أن يسأل المدعى عليه هل مات أبوه؟ ولا يأمره بجواب دعوى المدعي أولا فبعد ذلك المسألة على وجهين: إما أن أقر الابن فقال: نعم مات أبي، أو أنكر موت الأب فإن أقر وقال: نعم مات أبي؛ سأله القاضي عن دعوى الرجل على أبيه فإن أقر له بالدين على أبيه يستوفى الدين من نصيبه، ولو أنكر فأقام المدعي بينة على ذلك قبلت بينته وقضي بالدين ويستوفى الدين من جميع التركة لا من نصيب هذا الوارث خاصة.۔۔۔۔وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه.فإن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی