سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرا سوال یہ ہے کہ ایک بندے کے پاس مسجد کا فنڈ تھا، اس نے بوجہ مجبوری اس فنڈ کو اپنے کسی کام میں لگا لیا، اب وہ بندہ تھوڑی تھوڑی رقم قرض کی ادائیگی کی نیت سے جمعہ کے چندے میں جمع کرتا ہے، تاکہ وہ قرض ادا ہوجائے، جو اس نے لیا تھا، اس میں اس کی نیت بالکل بھی ثواب کی نہیں ہوتی، کیا اس طرح کرنے سے اس کا ذمہ بری ہوجائے گا؟
جواب: یاد رہے کہ مسجد کا فنڈ خزانچی کے پاس امانت ہوتا ہے، اس کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، لہذا اگر آپ نے مسجد کے فنڈ کو اپنے کام
میں استعمال کرلیا ہے، تو آپ پر اس کا ضمان لازم ہے، آپ جلد از جلد رقم لوٹانے کی کوشش کریں، اور اگر یک مشت ادا کرنا ممکن نہیں ہے، تو سوال میں مذکورہ طریقہ سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الهندية: (كتاب الوديعة، 338/4، ط: دار الفکر)
وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني.
الوديعة لا تودع ولا تعار ولا تؤاجر ولا ترهن، وإن فعل شيئا منها ضمن، كذا في البحر الرائق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی