عنوان: مؤکل کا وکیل سے دھوکہ کرنے کی صورت میں خریداروں کا وکیل سے اپنے تاوان کے لیے رجوع کرنے کا حکم (8873-No)

سوال: السلام علیکم، حضرت مفتی صاحب ! ایک ساتھی کے دوست نے سعودیہ ویزے بھیجے، اور یہ کہا کہ یہ مدینہ کے ویزے ہیں، اور کفیل بھی مدینے کا ہے، ان کو فروخت کرو، ہر ویزے کے بدلے تمہیں 50000 روپے ملیں گے، اس ساتھی نے وہ ویزے فروخت کیے، لیکن وہ لوگ سعودیہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، نہ مدینے کے ویزے ہیں اور نہ کفیل مدینے کا ہے، ان کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہاں وہ لوگ جیل بھی گئے، پھر ان کو واپس پاکستان بھیجا جاتا رہا، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس دھوکہ کے نتیجے میں جو اخراجات آئے ہیں، اس کا تاوان کس کے ذمہ ہوگا؟
اگرچہ جس نے ان بندوں کو بھیجا تھا، اس نے اپنے طور پر ان لوگوں کے نقصان کے ازالے کی کوشش کی ہے، مثلاً: کسی کو تین لاکھ واپس دیے، کسی کو دو لاکھ دے کر راضی کیا، لیکن چونکہ اس کو قطعاً یہ علم نہیں تھا کہ سعودیہ سے جس نے مدینہ کا نام سے یہ بھیجے ہیں، یہ کسی اور جگہ کے ویزے ہیں، وہ تو یہاں سے جب لوگ گئے، تو معلوم ہوا کہ یہ دھوکہ تھا، وہ مدینہ کے ویزے نہیں تھے، سعودیہ سے جس نے ویزے بھیجے، اس نے غلط بیانی سے کام لیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس کا اصل تاوان کس کے ذمہ ہوگا، آیا جس نے سعودیہ سے ویزے بھیجے ہیں، اس پر یا جس نے بروکر بن کر پاکستان سے لوگوں کو مدینہ کا نام لے کر ویزے فروخت کیے اس پر تاوان ہوگا؟
اس کا جواب شریعت کی روشنی میں عنایت فرما دیں۔
جزاکم اللہ خیرا

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں جن لوگوں نے وکیل سے ویزے خریدے ہیں، وہ اپنے نقصان کی تلافی کے لیے وکیل سے ہی رجوع کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (155/7، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وإلى أن الرد عليه لو كان وكيلا بالبيع فوجد المشتري بالمبيع عيبا ما دام الوكيل حيا عاقلا من أهل لزوم العهدة فإن كان محجورا يرد على الموكل وفي شرح الطحاوي وجد المشتري فيما اشتراه عيبا رجع بالثمن على الوكيل إن كان نقده الثمن وإن كان نقده من الموكل أخذه من الموكل ولم يذكر ما إذا أنقد الثمن إلى الوكيل ثم أعطاه هو إلى الموكل ثم وجد المشتري عيبا يرده على الوكيل أم الموكل.أفتى القاضي أنه يرده على الوكيل كذا في البزازية.

الفتاوی الھندیۃ: (142/5، ط: دار الفکر)
إذا أمر الرجل غيره أن يذبح له الشاة وكانت الشاة لجاره ضمن الذابح علم أن الشاة لغير الآمر أو لم يعلم وهل يرجع بالضمان على الآمر إن علم أن الشاة لغير الآمر حتى علم أن الأمر به لم يصح لا يكون له حق الرجوع وإن لم يعلم حتى ظن صحة الآمر رجع كذا في الذخيرة.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 565 Nov 30, 2021
muakkal ka wakeel se / say dhoka karne ki sorat me / may kharidaro ka wakeel se / say apne tawan ke / kay liye ruju karne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.