سوال:
مفتی صاحب ! میرے ابو کا انتقال ہوگیا ہے، ان پر ایک شخص کا دس ہزار روپے قرض تھا، جس میں سے میری والدہ نے تین ہزار روپے ادا کردیے ہیں، باقی سات ہزار دینے باقی ہیں، لیکن وہ شخص کہہ رہا ہے کہ ایک لاکھ روپیہ قرض تھا، ایسی صورت میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ دعویٰ کرنے والے پر دوگواہوں کا پیش کرنا لازم ہے اور اگر دعویٰ کرنے والے کے پاس گواہ نہ ہوں تو مدعی علیہ (جس پر دعویٰ کیا جائے) سے قسم لی جائے گی۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں مرحوم پر ایک لاکھ روپے کا دعویٰ کرنے والے کے ذمے اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرنا لازم ہے، اور اگر اس کے پاس گواہ نہیں ہیں اور میت کے ورثاء میں سے کوئی ان کے قرض کی رقم کا اقرار بھی نہیں کرتا تو اس صورت میں صرف دعویٰ کے ذریعہ ایک لاکھ کی رقم وصول نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شرعی طور پر یہ دعویٰ کرنے والے افراد میت کے ورثاء سے قسم لیں گے کہ انہیں اس قرض کا علم نہیں اور نہ میت نے انہیں بتایا ہے، اگر ورثاء اس بات پر قسم کھالیتے ہیں تو دعویٰ کرنے والے کا دعویٰ ساقط ہوجائے گا اور اگر میت کے ورثاء قسم کھانے سے انکار کرتے ہیں تو دعویٰ ثابت ہوجائے گا اور مرحوم کے ترکہ میں سے ایک لاکھ کی ادائیگی لازم ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (553/5، ط: دار الفکر)
(كذا إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه) فيحلف على العلم.
الفتاوی الھندیۃ: (407/3، ط: دار الفکر)
ولو أن رجلا قدم رجلا إلى القاضي وقال: إن أبا هذا قد مات ولي عليه ألف درهم دين فإنه ينبغي للقاضي أن يسأل المدعى عليه هل مات أبوه؟ ولا يأمره بجواب دعوى المدعي أولا فبعد ذلك المسألة على وجهين: إما أن أقر الابن فقال: نعم مات أبي، أو أنكر موت الأب فإن أقر وقال: نعم مات أبي؛ سأله القاضي عن دعوى الرجل على أبيه فإن أقر له بالدين على أبيه يستوفى الدين من نصيبه، ولو أنكر فأقام المدعي بينة على ذلك قبلت بينته وقضي بالدين ويستوفى الدين من جميع التركة لا من نصيب هذا الوارث خاصة.۔۔۔۔وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه.فإن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی