سوال:
السلام علیکم ،حضرت ! ایک ادارے میں شام کے وقت تدریس کے فرائض انجام دے رہا ہوں، اکثر مغرب کی نماز کی امامت کے لئے کہا جاتا ہے، کل مغرب کی نماز کی پہلی رکعت میں یہ گمان ہوا کہ سورہ الحشر کی آیت نمبر 21 میں لفظ'للناس' ادا کرنا رہ گیا، غالب گمان نہ تھا، صرف خدشہ تھا، اس آ یت کو پست آواز سے دہرایا،کیا نماز ہو گئی یا دہرانا پڑے گی؟ جزاکم اللہ خیرا
جواب: اگر جہری نماز کے اندر قرأت کے دوران آیت کے کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہوں، اور ان الفاظ کے چھوٹنے سے معنی کے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی ہو، تو ایسی صورت میں نماز صحیح ہوجاتی ہے، لہذا سوال میں ذکرکردہ صورت میں نماز ادا ہوگئی ہے، اور جب لفظ چھوٹ جانے کا یقین بھی نہیں ہے، بلکہ محض ایک گمان ہے، تو اس خیال اور گمان کی طرف توجہ نہیں دینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (630/1، ط: دار الفکر)
ومنها زلة القارئ فلو في إعراب أو تخفيف مشدد وعكسه، أو بزيادة حرف فأكثر نحو الصراط الذين، أو بوصل حرف بكلمة نحو إياك نعبد، أو بوقف وابتداء لم تفسد وإن غير المعنى به يفتى بزازية، إلا تشديد {رب العالمين} [الفاتحة: 2] ، و {إياك نعبد} [الفاتحة: 5] فبتركه تفسد؛ ولو زاد كلمة أو نقص كلمة أو نقص حرفا، أو قدمه أو بدله بآخر نحو من ثمره إذا أثمر واستحصد - تعالى جد ربنا - انفرجت بدل - انفجرت - إياب بدل - أواب - لم تفسد ما لم يتغير المعنى إلا ما يشق تمييزه كالضاد والظاء فأكثرهم لم يفسدها وكذا لو كرر كلمة؛ وصحح الباقاني الفساد إن غير المعنى نحو. رب رب العالمين للإضافة كما لو بدل كلمة بكلمة وغير المعنى نحو: إن الفجار لفي جنات؛ وتمامه في المطولات.
رد المحتار: (630/1، ط: دار الفکر)
"ان الخطاء اما فی الاعراب أی الحرکات والسکون ویدخل فیہ تخفیف المشدد وقصر الممدود وعکسھما أو فی الحروف بوضع حرف مکان اخر، أو زیادتہ أو نقصہ أو تقدیمہ أو تأخیرہ أو فی الکلمات أو فی الجمل کذلک أو فی الوقف ومقابلہ والقاعدۃ عند المتقدمین ان ماغیر المعنی تغییراً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک سواء کان فی القرآن أولا۔ الا ما کان من تبدیل الجمل مفصولا بوقف تام وان لم یکن التغییر کذلک فان لم یکن مثلہ فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد ایضاً کھذا الغبار مکان ھذا الغراب، وکذا اذا لم یکن مثلہ فی القرآن ولا معنی لہ کالسرائل باللام مکان السرائر وان کان مثلہ فی القرآن والمعنی بعید ولم یکن متغیرا فاحشا تفسد أیضا عند ابی حنیفۃ و محمد، وھو الاحوط، وقال بعض المشایخ: لاتفسد لعموم البلوی، وھو قول أبی یوسف وان لم یکن مثلہ فی القرآن ولکن لم یتغیر بہ المعنی نحو قیامین مکان قوامین فالخلاف علی العکس، فالمعتبر فی عدم الفساد عند عدم تغیر المعنی کثیراً وجود المثل فی القرآن عندہ والموافقۃ فی المعنی عندھما، فھذہ قواعد الائمۃ المتقدمین، واما المتأخرون کابن مقاتل وابن سلام واسمعیل الزاھد وابی بکر البلخی والھندوانی وابن الفضل والحلوانی، فاتفقوا علی ان الخطأ فی الاعراب لایفسد مطلقاً ولو اعتقادہ کفرا لان اکثر الناس لایمیزون بین وجوہ الاعراب، قال قاضیخان: وما قالہ المتأخرون أوسع وما قالہ المتقدمون أحوط".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی