سوال:
السلام علیکم، شفیق نے ایک بھینس تیس ہزار کی خرید کر عمرکو ساجھے پر یعنی آدھے حصہ پر پندرہ ہزار قیمت متعین کرکے دے دی کہ جب اس کو پال کر بڑا کرکے بیچیں گے، تو عمر پہلے پندرہ ہزار روپے شفیق کو دے گا، پھر باقی منافع آدھا آدھا تقسیم ہوجائے گا۔
پنجاب کا روایتی طریقہ شراکت بھی کچھ اسی طرح ہے، اس بھینس کو پالنا، جیسے چارہ ڈالنا، پانی پلانا، دھوپ چھاؤں میں باندھنا، یہ سب عمر کی زمہ داری ہے، جب سال رکھنے کے بعد بھینس نے بچہ دیا، تو شفیق نے تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ عمر نے عذر پیش کیا کہ کچھ وقت دودھ کی ضرورت ہے، جوکہ صرف عمر ہی استعمال کرتا رہا ہے۔ اب دوبارہ بھینس بچہ دینے کے قریب ہے، شفیق نے پھر تقسیم کرنے کا کہا ہے، اب اس صورت میں بھینس اگر دو لاکھ کی بک جائے، تو شرعاً پیسوں کی تقسیم کیسے کی جائے، پہلے والا بچہ بھی بڑا ہوگیا ہے، وہ بھی علیحدہ بک جائے گا، اس صورت میں شرعی طریقہ بتادیجیئے، تاکہ اس پر عمل کیا جاسکے۔
نیز جانوروں کی شراکت کا صحیح طریقہ جو شریعت میں ہو، وہ بھی بتادیجیئے۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: 1- سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ شفیق نے اپنی خریدی ہوئی بھینس کا آدھا حصہ عمر کو 15000 روپے میں فروخت کردیا ہے، چنانچہ وہ بھینس ان دونوں میں مشترک ہوگئی، اس کے بعد جب شفیق نے عمر کو پالنے کے لیے دیدی اور عمر نے اس کو بخوشی قبول کر لیا ہے، تو ایسا کرنا جائز ہے، اس مشترکہ بھینس کے فروخت ہونے تک اس کے پالنے کے اخراجات دونوں شریکوں پر برابر آئیں گے، اسی طرح اس دوران جانور سے حاصل ہونے والے منافع مثلاً دودھ اور اون وغیرہ، یہ بھی دونوں کے درمیان مشترک ہوں گے، اگر دونوں شرکاء باہمی رضامندی سے ان اخراجات اور منافع کو جیسے تقسیم کریں، وہ ان کی صوابدید پر ہے، مثلا دونوں اس بات پر اتفاق کر لیں کہ عمر اس بھینس کو پالنے کے اخراجات کے عوض شفیق کے حصے کا دودھ استعمال کرے گا، تو ایسا کرنا بھی جائز ہے۔
اسی طرح جب یہ مشترک جانور فروخت ہوگا، تو عمر کے ذمہ شفیق کے جو 15000 روپے ہیں، شفیق وہ وصول کر لے گا اور اس کے بعد باقی سارا نفع دونوں میں آدھا آدھا تقسیم ہوگا۔
نیز بھینس کے بچہ کے پالنے میں آنے والے اخراجات بھی دونوں شریکوں پر برابر تقسیم ہوں گے، اور اگر اسے فروخت کیا جاتا ہے، تو اس کی قیمت بھی دونوں شریکوں میں برابر تقسیم ہوگی۔
2- ابتدائی طور پر شرکت کا جو طریقہ آپ نے اختیار کیا ہے، وہ شرعاً درست ہے، البتہ اخراجات اور منافع کی تقسیم میں مذکورہ بالا طریقہ کار اختیار کیا جائے، نیز اس پورے معاملے کی مدت بھی متعین کر دی جائے اور اندازے اتنی مدت مقرر کی جائے، جس میں سہولت کے ساتھ عموماً ایسے جانور کی پرورش مکمل ہو جاتی ہے اور وہ فروخت ہونے کے قابل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ الھندیۃ: (الباب الخامس في الشرکة الفاسدة، 335/2، ط: دار الفکر)
"وعلی هذا إذا دفع البقرة إلی إنسان بالعلف لیکون الحادث بینهما نصفین، فما حدث فهو لصاحب البقرة، ولذلک الرجل مثل العلف الذي علفها وأجر مثله فیما قام علیها، والحیلة في ذلک أن یبیع نصف البقرة من ذلک الرجل بثمن معلوم حتی تصیر البقرة وأجناسها مشترکة بینهما فیکون الحادث منها علی الشرکة، کذا فی الظہیریۃ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی