سوال:
ایک کمپنی ہے، جو روز مرہ میں استعمال ہونے والی چیزیں ہیں، اسے وہ بیچتی ہے اور جو شخص اس کمپنی میں ممبر
بننا چاہتا ہے، اسے سات سو روپے ادا کرنا ہوتے ہیں، صرف ایک مرتبہ اس کے بعد وہ بھی کمپنی کا ملازم بن جاتا ہے، کمپنی اسے اس کی ملازمت پر جو اجرت دیتی ہے، وہ اس طرح ہے کہ (1) اگر آپ دو لوگوں کو لاتے ہو تو آپ کو 200 روپے کمپنی دےگی
(2) اگر وہ لوگ کچھ خریدتے ہیں، تو ان کی خریداریی پر جو کمپنی کو فائدہ ہوگا، اس پر کمپنی آپ کو 10%منافع دےگی، مثلاً: ان دو شخص جن کو آپ کمپنی میں لانے ہیں، ان میں سے کوئی ایک 1000 روپے کا سامان خریدتا ہے تو اس کی خریداری کے عوض کمپنی دس پرسینٹ عطا کرے گی، میرے خیال میں یہ اسلیے کے ہم نے کمپنی کو فائدہ پہنچایا ہے، لہذا کمپنی ہمیں بونس دے رہی ہے، جو کے سود نہیں، کیوں کہ سود وہ ہے، جو بلا عوض دیا جائے، اسی طرح اگر وہ دونوں حضرات بھی یہی عمل کرتے ہیں، تو ان کو اسی طرح انکی اجرت کمپنی انکو دے دے گی تو کیا اس طرح کی کمپنیوں میں کام کرنا جائز ہے؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ طریقہ کار بظاہر نیٹ ورک مارکیٹنگ (Network Marketing) یا ملٹی لیول مارکیٹنگ (Multi Level Marketing) کا معلوم ہوتا ہے، جس کے مطابق بہت سی کمپنیاں کام کر رہی ہیں، جب تک کسی خاص کمپنی کے کاروبار کا مکمل طریقہ کار٬ کمپنی کی قانونی حیثیت اور اس کے تمام پراجیکٹس کی مکمل تفصیلات ہمارے سامنے نہ ہوں، اس سے متعلق کوئی شرعی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔
البتہ مروجہ نیٹ ورکنگ مارکیٹنگ کے طریقہ کار کے مطابق کم قیمت کی چیزیں مہنگے داموں میں فروخت کی جاتی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ آگے ممبر بنا کر اس پر کمیشن دینے کی پیشکش کی جاتی ہے، لوگ کمیشن کی لالچ میں کم قیمت کی چیزیں مہنگے داموں میں خریدتے ہیں، جو شرعا جوئے کی ایک شکل ہے، نیز نیٹ ورک مارکیٹنگ کا مروجہ طریقہ کار دیگر بہت سے غیر شرعی امور (مثلا غرر، مختلف معاملات کو ایک دوسرے کے ساتھ مشروط کرنے، اور دیگر فاسد شرائط) پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے.
واضح رہے کہ یہ حکم مروجہ نیٹ ورکنگ کا ہے، آپ نے اگر کسی خاص کمپنی کے طریقہ کار کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرنا ہو، تو اس سلسلے میں بہتر ہے کہ آپ اس کمپنی کی اول تا آخر مکمل تفصیلات حاصل کرکے جامعہ دارالعلوم کورنگی کراچی سے باقاعدہ تحریری صورت میں شرعی حکم معلوم کرلیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
أحکام القرآن للجصاص: (تحت آیۃ سورۃ البقرۃ: 329/1، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ولا خلاف بین أہل العلم في تحریم القمار.
مسند أحمد: (324/6، ط: موسسة الرسالة)
عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود،، عن أبيه، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة"
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 31/1115
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی