سوال:
مفتی صاحب! ہمارا کنسٹرکشن کا کام ہے، پلاٹ پر فلیٹ تعمیر کرتے ہیں، خریدار بینک سے لون لینے والے بھی آرہے ہیں، جن کی کچھ یا تمام پیمنٹ بینک سے ہوتی ہے، کیا ہمارے لیے ان سے کنسٹرکشن کے پیسے لینا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بینک وغیرہ سے سودی قرض (Loan) لینا ناجائز اور حرام ہے، تاہم اگر کسی نے ایسا معاملہ کرلیا ہو، تو اسے سودی معاملہ کرنے کا تو گناہ ہوگا، البتہ وہ رقم حرام نہیں کہلائے گی، کیونکہ بینک کے پاس موجود ساری رقوم حرام نہیں ہوتی، بلکہ زیادہ تر رقوم جو لوگوں سے لی ہوتی ہیں، وہ حلال ہوتی ہیں، اس لئے بینک سے وصول کی گئی قرض کی رقم کو حرام نہیں کہا جائے گا، بلکہ اس رقم پر اضافی پیسے بینک کو واپس کرنا اور بینک کیلئے اس اضافی رقم کو اپنے استعمال میں لانا ناجائز اور حرام ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص بینک سے سودی قرض لیکر آپ کے پاس فلیٹ وغیرہ تعمیر کرانے آتا ہے، تو آپ کیلئے فلیٹ وغیرہ کی تعمیر کے عوض ایسی رقم کا وصول کرنا جائز ہے، البتہ سودی قرض لینے والے کو سودی معاملہ کرنے کا گناہ ہوگا، لہذا اس کیلئے سودی معاملے سے بچنا شرعا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیة: 278- 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَo فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَo
فقہ البیوع: (1061/2، ط: معارف القرآن)
القسم الثالث: ماکان مجموعا من الحلال والحرام، وھوعلی اربع صور:الصورة الاولی ان یکون الحلال عندالغاصب اوکاسب الحرام متمیزا من الحرام،فیجری علی کل واحد منہما احکامہ،وان اعطی احدا من الحلال حل للآخذ،وان اعطی من الحرام حرم علیہ،وان علم الآخذ ان الحلال والحرام متمیزان عندہ،ولکن لم یعلم ان مایاخذہ من الحلال او من الحرام،فالعبرة عندالحنفیة للغلبة،فان کان الغالب فی مال المعطی الحرام لم یجزلہ،وان کان الغالب می مالہ الحلال ،وسع لہ ذالک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ومنہ یعلم حکم التعامل مع البنوک الربویة وان اموال البنک الربوی مخلوطة بالحلال والحرام، فان راس المال الذی یفترض فیہ انہ حلال مالم یعرف خلاف ذلک، ومنہا الاموال المودعة فیہامن قبل المودعین ویفترض فیہا ایضا انہاحلال مالم یثبت خلاف ذالک، ومنہاایرادات البنک عوضا عن الخدمات الجائزة شرعا،مثل تحویل المبالغ،وعملیات التبادل العاجل للعملات وغیرھا وھی حلال ایضا۔وفیہا ایراداتہا الغالبة الحاصلة من تعاملتہ الربویة،وھی حرام،فاموال البنک الربوی داخل فی الصورة الثالثة من القسم الثالث، فیجوزالتعامل معا بقدر ما فیہا من الحلال
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی