سوال:
مفتی صاحب ! قبضہ کی جگہ پر مسجد بنی ہو، اس مسجد کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ ایک اسلامی ریاست میں لوگوں کی ضروریات کے لیے مساجد کا تعمیر کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہے، لیکن حکومت وہاں مسجد کی تعمیر کے لیے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی اور وہاں کے مسلمان باہمی تعاون کے ساتھ کسی جگہ پر مسجد تعمیر کرلیتے ہیں اور اس میں کئی سال تک باقاعدگی سے پنچ وقتہ نمازیں اور جمعہ ادا کرتے ہیں اور حکومت کی طرف سے مسجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا ہو، تو ایسی مسجد "مسجد شرعی" کا حکم رکھتی ہے، اور وہ قیامت تک مسجد کے حکم میں ہے، اس کو گرانا یا اس کی جگہ کوئی اور عمارت بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (358/4، ط: دار الفکر)
(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) حاوي القدسي.
البحر الرائق: (269/5- 270، ط: دار الكتاب الاسلامى)
وقد رأينا ببخارى وغيرها في دور وسكك في أزقة غير نافذة من غير شك الأئمة والعوام في كونها مساجد فعلى هذا المساجد التي في المدارس بجرجانية خوارزم مساجد لأنهم لا يمنعون الناس من الصلاة فيها... بنى في فنائه في الرستاق دكانا لأجل الصلاة يصلون فيه بجماعة كل وقت فله حكم المسجد
و فيه أيضاً: (باب ما يحدث الرجل فى الطريق، 395/8، ط: دار الكتاب الاسلامى)
اذا بنى للمسلمين كالمسجد ونحوه فلا ينتقض.
رد المحتار: (381/1، ط: دار الفکر)
"وفي شرح المنية للحلبي: بنى مسجدا في أرض غصب لا بأس بالصلاة فيه. وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اه ثم قال: ومدرسة السليمانية في دمشق مبنية في أرض المرجة التي وقفها السلطان نور الدين الشهيد على أبناء السبيل بشهادة عامة أهل دمشق والوقف يثبت بالشهرة، فتلك المدرسة خولف في بنائها شرط وقف الأرض الذي هو كنص الشارع، فالصلاة فيها مكروهة تحريما في قول، وغير صحيحة له في قول آخر كما نقله في جامع الفتاوى، وكذا ماؤها مأخوذ من نهر مملوك، ومن هذا القبيل حجرة اليمانيين في الجامع الأموي، ولا حول ولا قوة إلا بالله. اه."
کذا فی فتاویٰ بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144003200332
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی