سوال:
مفتی صاحب ! میری والدہ اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرنا چاہتی ہیں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں، تو پھر اس گھر میں اُن کا کتنا حصہ ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ شرعی طور پر وراثت انتقال کے بعد جاری ہوتی ہے، زندگی میں وراثت جاری نہیں ہوتی، بلکہ زندگی میں ہر شخص اپنی ملکیت کا خود مالک و مختار ہے، لہٰذا اگر گھر آپ کی والدہ کی ملکیت ہے، تو اس گھر کو زندگی میں تقسیم کرنا شرعاً ان کے ذمہ لازم نہیں ہے، البتہ اگر والدہ خود اپنی خوشی و رضامندی سے اپنی زندگی میں ہی مذکورہ گھر تقسیم کرنا چاہیں، تو اس کی اجازت ہے، لیکن شرعاً یہ میراث نہیں کہلائے گی، بلکہ یہ آپ کی والدہ کی طرف سے اپنی اولاد کے لیے ہبہ (گفٹ) کہلائے گا اور اس پر گفٹ کے احکام جاری ہوں گے۔
گھر زندگی میں تقسیم کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ کی والدہ پہلے اپنے لیے اپنے گھر کی قیمت میں سے جو کچھ رکھنا چاہیں رکھ لیں، تاکہ بعد میں کسی کی محتاجی نہ ہو، نیز ان پر کسی کا قرض ہو، تو وہ بھی ادا کرلیں، اس کے بعد جو بقایا مال و جائیداد بچے، اس میں بہتر یہ ہے کہ اپنی اولاد میں برابر برابر تقسیم کردیں، یعنی جتنا حصہ بیٹے کو دیں، اتنا ہی بیٹی کو بھی دیں۔
اور اگر میراث کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے بیٹوں کو بیٹیوں سے دو گنا دینا چاہیں، تو وہ بھی جائز ہے، کوئی حرج نہیں۔
واضح رہے کہ اولاد میں سے بلاوجہ کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے اس کے حصہ میں کمی کرنا یا اس کو جائیداد سے محروم کرنا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اگر ان میں سے کوئی زیادہ فرمانبردار ہو،یا دین دار ہو، یا اس کی مالی حالت بہتر نہ ہو، تو اس بناء پر کچھ زیادہ دینا جائز ہے۔
نیز چونکہ زندگی میں اپنی جائیداد تقسیم کرنا شرعاً ہبہ(گفٹ) ہے، اس لیے اگر کسی کو کچھ دینا چاہیں، تو اس کو مالک و قابض بناکردینا لازم ہے، پھر آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد یہ گھر ان کے ترکہ میں شامل نہیں ہوگا، بلکہ جس کو جو حصہ قابض و مالک بناکر دیا گیا، وہی اس کا مالک ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشكاة المصابيح: (رقم الحدیث: 3019، ط: المكتب الإسلامي، بيروت)
وَعَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ أَنَّ أَبَاهُ أَتَى بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا فَقَالَ: «أَكُلَّ وَلَدِكَ نَحَلْتَ مِثْلَهُ؟» قَالَ: لَا قَالَ: «فَأَرْجِعْهُ» .... وَفِي رِوَايَةٍ: أَنَّهُ قَالَ: «لَا أشهد على جور» (مُتَّفق عَلَيْهِ)
مرقاة المفاتيح: (2008/5، ط: دار الفكر)
(فَقَالَ: آكُلَّ وَلَدِكَ) : بِنَصْبِ كُلَّ (نَحَلْتَ مِثْلَهُ) أَيْ: مِثْلَ هَذَا الْوَلَدِ دَلَّ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الذُّكُورِ وَالْإِنَاثِ فِي الْعَطِيَّةِ....قَالَ النَّوَوِيُّ: " فِيهِ اسْتِحْبَابُ التَّسْوِيَةِ بَيْنَ الْأَوْلَادِ فِي الْهِبَةِ فَلَا يُفَضِّلُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ سَوَاءٌ كَانُوا ذُكُورًا أَوْ إِنَاثًا، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَالصَّحِيحُ الْأَوَّلُ لِظَاهِرِ الْحَدِيثِ فَلَوْ وَهَبَ بَعْضَهُمْ دُونَ بَعْضٍ فَمَذْهَبُ الشَّافِعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَأَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى - أَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَلَيْسَ بِحَرَامٍ وَالْهِبَةُ صَحِيحَةٌ، وَقَالَ أَحْمَدُ وَالثَّوْرِيُّ وَإِسْحَاقُ - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - وَغَيْرُهُمْ: هُوَ حَرَامٌ، وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِهِ: «لَا أَشْهَدُ عَلَى جَوْرٍ».
تكملة فتح الملهم: (71/5، ط: مکتبة دار العلوم کراتشی)
"فالذي يظهر لہذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،....أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد....
رد المحتار: (کتاب الفرائض، 769/6، ط: سعید)
أن شرط الإرث وجود الوارث حيا عند موت المورث.
اللباب في شرح الكتاب: (217/2، ط: المكتبة العلمية، بيروت)
ومن شرط الإرث تحقق موت الموروث وحياة الوارث.
بدائع الصنائع: (127/6، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
ينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في النحلى لقوله سبحانه وتعالى {إن الله يأمر بالعدل والإحسان} [النحل: 90] .(وأما) كيفية العدل بينهم فقد قال أبو يوسف العدل في ذلك أن يسوي بينهم في العطية ولا يفضل الذكر على الأنثى وقال محمد العدل بينهم أن يعطيهم على سبيل الترتيب في المواريث للذكر مثل حظ الأنثيين كذا ذكر القاضي الاختلاف بينهما في شرح مختصر الطحاوي وذكر محمد في الموطإ ينبغي للرجل أن يسوي بين ولده في النحل ولا يفضل بعضهم على بعض.وظاهر هذا يقتضي أن يكون قوله مع قول أبي يوسف وهو الصحيح لما روي أن بشيرا أبا النعمان أتى بالنعمان إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم [الخ]....وهذا إشارة إلى العدل بين الأولاد في النحلة وهو التسوية بينهم ولأن في التسوية تأليف القلوب والتفضيل يورث الوحشة بينهم فكانت التسوية أولى ....وأما على قول المتأخرين منهم لا بأس أن يعطي المتأدبين والمتفقهين دون الفسقة الفجرة.
الدر المختار: (696/5، ط: سعید)
وفي الخانية لابأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالإبن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.
البحر الرائق: (288/7، ط: دار الكتاب الإسلامي)
يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز قضاء وهو آثم.
الهندية: (374/4، ط: دار الفکر)
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی