عنوان: نجاست کی کتنی مقدار معاف ہے؟ (8976-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! درھم کی مقدار بتادیں آیا ناپاکی کی مقدار کتنی ہے؟ ہاتھ کی ہتھیلی کے بقدر بھی کہتے ہیں اور درھم کے بقدر بھی کہتے ہیں اور ایک روپیہ کے برابر بھی کہتے ہیں۔ میں نے اپنے علاقے کے علمائے کرام سے بھی پوچھا، لیکن تسلی بخش جواب نہیں ملا، اب میں پریشان ہوں کہ کتنی مقدار میں ناپاکی معاف ہے؟
برائے مہربانی آپ کوئی ایسا سہل اندازہ بتادیں یا پھر کسی ایسی چیز کا اندازہ بتادیں کہ وہ چیز پاکستان کے ہر علاقے سے باآسانی مل جاتی ہو، میری مشکل بھی دور ہوجائے اور سمجھنے میں بھی مجھے آسانی ہوجائے۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: نجاست کی دو قسمیں ہیں:
1۔نجاست غلیظہ یعنی جس کی نجاست حکم میں سخت ہے۔
2۔ نجاست خفیفہ یعنی جس کی نجاست حکم میں ذرا کم اور ہلکی ہے۔
نجاست غلیظہ کا حکم:
نجاست غلیظہ پتلی اور بہنے والی نجاست ہے، جیسے: آدمی کا پیشاب وغیرہ، اور وہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے، تو پھیلاؤ کا اعتبار ہے، لہذا اگر پھیلاؤ میں ہتھیلی کی گہرائی کے برابر ہے، تو معاف ہے، اور معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر نجاست لگنے کا پتہ ہو اور جماعت یا وقت کے نکلنے کا اندیشہ نہ ہو، تو بغیر دھوئے نماز پڑھنا اور دھونے میں سستی کرنا مکروہ ہے اور اگر نجاست لگنے کا پتہ نہ ہو اور نماز پڑھ لی یا پتہ ہو، لیکن جماعت کے نکلنے یا وقت کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو یا نجاست کے دور کرنے کے لیے پانی نہ ہو، تو ایسی صورت میں اگر بغیر دھوئے نماز پڑھ لی، تو نماز ہو جائے گی۔
نیز ہتھیلی کی گہرائی معلوم کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہتھیلی کو پوری طرح کھول کر پھیلادیا جائے اور اس پر پانی ڈالا جائے، جتنی مقدار میں پانی ہتھیلی میں ٹہر جائے، وہ ہتھیلی کی گہرائی ہے، جو ایک روپے کے بڑے سکے کے بقدر ہے۔
اور اگر نجاست غلیظہ گاڑھی ہے، جیسے: پاخانہ وغیرہ تو وزن کا اعتبار ہوگا، لہذا اگر وزن میں ساڑھے چار ماشہ (4.374 گرام) یا اس سے کم ہو، تو معاف ہے، اگر اس مقدار سے زائد ہو، تو معاف نہیں ہے۔
نجاست خفیفہ کا حکم:
اگر نجاستِ خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے، جیسے:حرام پرندوں کی بیٹ وغیرہ، تو جس حصہ میں لگی ہے، اگر اس کے چوتھائی حصہ سے کم ہو، تو بغیر دھوئے نماز ہو جائے گی، یعنی اگر نجاست خفیفہ آستین میں لگی ہے، تو اس آستین کی چوتھائی مقدار سے کم ہو، اگر بازو میں لگی ہے، تو اس بازو کی چوتھائی سے کم ہو، تو معاف ہے، غرض یہ کہ جس عضو میں لگے، اس کی چوتھائی سے کم ہو، تو معاف ہے اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ پر نجاست لگی ہو، تو معاف نہیں ہے، بلکہ دھونا لازم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (316/1، ط: دار الفکر)
(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل فيفرض.

رد المحتار: (317/1، ط: دار الفکر)
ففي المحيط: يكره أن يصلي ومعه قدر درهم أو دونه من النجاسة عالما به لاختلاف الناس فيه. زاد في مختارات النوازل قادرا على إزالته وحديث «تعاد الصلاة من قدر الدرهم من الدم» لم يثبت، ولو ثبت حمل على استحباب الإعادة توفيقا بينه وبين ما دل عليه الإجماع على سقوط غسل المخرج بعد الاستجمار من سقوط قدر الدرهم من النجاسة مطلقا اه ملخصا.
أقول: ويؤيده قوله في الفتح: والصلاة مكروهة مع ما لا يمنع، حتى قيل لو علم قليل النجاسة عليه في الصلاة يرفضها ما لم يخف فوت الوقت أو الجماعة. اه. ومثله في النهاية والمحيط كما في البحر، فقد سوى بين الدرهم وما دونه في الكراهة ورفض الصلاة، ومعلوم أن ما دونه لا يكره تحريما إذ لا قائل به، فالتسوية في أصل الكراهة التنزيهية وإن تفاوتت فيهما، ويؤيده تعليل المحيط للكراهة باختلاف الناس فيه إذ لا يستلزم التحريم. وفي النتف ما نصه: فالواجبة إذا كانت النجاسة أكثر من قدر الدرهم، والنافلة إذا كانت مقدار الدرهم وما دونه. وما في الخلاصة من قوله " وقدر الدرهم لا يمنع، ويكون مسيئا وإن قل، فالأفضل أن يغسلها ولا يكون مسيئا. اه. لا يدل على كراهة التحريم في الدرهم لقول الأصوليين: إن الإساءة دون الكراهة، نعم يدل على تأكد إزالته على ما دونه فيوافق ما مر عن الحلية ولا يخالف ما في الفتح كما لا يخفى، ويؤيد إطلاق أصحاب المتون قولهم " وعفي قدر الدرهم " فإنه شامل لعدم الإثم فتقدم هذه النقول على ما مر عن الينابيع - والله تعالى أعلم.

و فیه أيضاً: (318/1، ط: دار الفکر)
(قوله: وهو داخل مفاصل أصابع اليد) قال منلا مسكين: وطريق معرفته أن تغرف الماء باليد ثم تبسط، فما بقي من الماء فهو مقدار الكف. (قوله: من مغلظة) متعلق بقوله عفي ط أو بمحذوف صفة لكثيف ورقيق أي: كائنين من نجاسة مغلظة. وقال في الدرر متعلق بقدر الدرهم.
ثم اعلم أن المغلظ من النجاسة عند الإمام ما ورد فيه نص لم يعارض بنص آخر، فإن عورض بنص آخر فمخفف كبول ما يؤكل لحمه، فإن حديث «استنزهوا البول» يدل على نجاسته وحديث العرنيين يدل على طهارته. وعندهما ما اختلف الأئمة في نجاسته فهو مخفف، فالروث مغلظ عنده؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - سماه ركسا ولم يعارضه نص آخر. وعندهما مخفف، لقول مالك بطهارته لعموم البلوى، وتمام تحقيقه في المطولات.

بدائع الصنائع: (80/1، ط: دار الکتب العلمیہ)
أن النجاسة الغليظة عند أبي حنيفة: ما ورد نص على نجاسته، ولم يرد نص على طهارته، معارضا له وإن اختلف العلماء فيه والخفيفة ما تعارض نصان في طهارته ونجاسته، وعند أبي يوسف ومحمد الغليظة: ما وقع الاتفاق على نجاسته، والخفيفة: ما اختلف العلماء في نجاسته وطهارته.

البحر الرائق: (240/1، ط: دار الکتاب الاسلامی)
وأراد بالدرهم المثقال الذي وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة أنه يعتبر في كل زمان درهمه والأول هو الصحيح، كذا في السراج الوهاج وأفاد بقوله كعرض الكف أن المعتبر بسط الدرهم من حيث المساحة وهو قدر عرض الكف وصححه في الهداية وغيرها وقيل من حيث الوزن والمصنف في كافيه ووفق الهندواني بينهما بأن رواية المساحة في الرقيق كالبول ورواية الوزن في الثخين واختار هذا التوفيق كثير من المشايخ وفي البدائع وهو المختار عند مشايخ ما وراء النهر وصححه الشارح الزيلعي وصاحب المجتبى وأقره عليه في فتح القدير؛ لأن إعمال الروايتين إذا أمكن أولى خصوصا مع مناسبة هذا التوزيع.

الھندیۃ: (45/1، ط: دار الفکر)
وهي نوعان (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف. هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى والمثقال وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة يعتبر في كل زمان بدرهمه والصحيح الأول. هكذا في السراج الوهاج ناقلا.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1158 Dec 22, 2021
najasat ki kitine miqdar muaf he?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Purity & Impurity

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.