عنوان: حکومت کا چالیس سالہ پرانی مسجد کو تجاوزات کے نام پر مسمار کرنے کا شرعی حکم(8994-No)

سوال: مفتی صاحب! ایک چالیس سال پرانی مسجد کو تجاوز کے نام پر شہید کرکے، اس کے قریب دوسری مسجد تعمیر کی جارہی ہے، اور اس پرانی مسجد کی جگہ نالیاں بنائی جارہی ہیں، جس میں سے سیوریج کا پانی گزرے گا، کیا یہ عمل درست ہے؟

جواب: واضح رہے کہ لوگوں کی ضرورت وحاجت کے مطابق مسلمانوں کے لیے مساجد تعمیر کرنا حکومت کے فرائض منصبی میں شامل ہے، اگر حکومت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتی اور اس میں کوتاہی برتتی ہے، تو پھر عوام الناس کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ضرورت وحاجت کے مطابق اپنے لیے مسجد تعمیر کریں۔
لہذا اگر حکومت کی غفلت اور دین بیزاری کی وجہ سے اہل علاقہ مل کر اپنے لیے کسی خالی سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کرتے ہیں، تو اگر حکومت اس سے منع نہیں کرتی اور دیکھ کر خاموشی اختیار کرلیتی ہے اور اس کی تعمیر پر اعتراض نہیں کرتی، تو یہ خاموشی حکومت کی طرف سے اذن (اجازت) شمار ہوگی، اور ایسی مسجد "مسجد شرعی" کہلائے گی، اور تاقیامت اس کا احترام واجب اور ضروری ہوگا۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ یہ مسجد چالیس سال قبل تعمیر کی گئی ہے، اور تب سے اب تک اس میں مسلمان نماز پڑھتے آرہے ہیں، لہذا یہ مسجد "مسجد شرعی" بن چکی ہے، اس کا گرانا اور مسمار کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کی جگہ پر سیوریج کے لیے نالہ بنانا مسجد کے احترام اور تقدس کے خلاف ہے، جو کہ ناجائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (فصل اختص المسجد باحکام تخالف، 268/5، ط: دار الكتاب الاسلامي)
قوله (ومن بنى مسجدا لم يزل ملكه حتى يفرزه عن ملكه بطريقه ويأذن بالصلاة فيه وإذا صلى فيه واحد زال ملكه) أما الإفراز فإنه لا يخلص لله تعالى إلا به وأما الصلاة فيه فلأنه لا بد من التسليم عند أبي حنيفة ومحمد فيشترط تسليم نوعه وذلك في المسجد بالصلاة فيه أو لأنه لما تعذر القبض يقام تحقق المقصود مقامه.
 
الفتاوي الھندية: (الباب الحادی عشر فی المسجد، 457/2، ط: دار الفكر)
في وقف الخصاف إذا جعل أرضه مسجدا وبناه وأشهد أن له إبطاله وبيعه فهو شرط باطل ويكون مسجدا، كما لو بنى مسجدا لأهل محلة وقال: جعلت هذا المسجد، وقال: هذا المسجد لأهل هذه المحلة خاصة، كان لغير أهل تلك المحلة أن يصلي فيه، هكذا في الذخيرة.

مجمع الانهر: (فصل في بيان أحكام الجزية، 678/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
(و) ما (أخذ منهم) أي من أهل الحرب (بلا قتال) بأن أخذ بالصلح (في مصالح المسلمين) متعلق بيصرف (كسد الثغور) جمع ثغر وهو موضع مخافة البلدان (وبناء القناطر) جمع قنطرة (والجسور) جمع جسر والفرق بينهما أن الأول لا يرفع والثاني يرفع وفيه إشارة إلى أنه يصرف في بناء المساجد والبقعة عليها لأنه من المصالح فيدخل فيه الصرف على إقامة شعائرها من وظائف الإمامة والأذان ونحوهما.

الموسوعة الفقهية الكويتية: (بناء المساجد و عمارتھا، 195/37، ط: دار الصفوة)
يجب بناء المساجد في الأمصار والقرى والمحال - جمع محلة - ونحوها حسب الحاجة وهو من فروض الكفاية.
والمساجد هي أحب البقاع إلى الله تعالى في الأرض وهي بيوته التي يوحد فيها ويعبد، يقول سبحانه: {في بيوت أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه} ، قال ابن كثير: أي أمر الله تعالى بتعاهدها وتطهيرها من الدنس واللغو والأقوال والأفعال التي لا تليق فيها، كما قال ابن عباس: نهى الله سبحانه عن اللغو فيها، وقال قتادة: هي هذه المساجد أمر الله سبحانه وتعالى ببنائها وعمارتها ورفعها وتطهيرها.

امداد الاحکام: (أحکام المساجد و المدارس، 204/3، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 873 Dec 28, 2021
hokumat / government ka chalees / fourty sala / years purani masjid ko tajawuzat ke / kay naam per / par masmar karne ka sharae / sharai hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Rights & Etiquette of Mosques

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.