سوال:
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !مفتی صاحب ! اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ہمارے والد صاحب نے آج سے تقریباً تیس سال پہلے ایک زمین (بیس جریب) اپنے ہی ایک دوست سے بعوض بیس لاکھ روپے کے بدلے خریدی تھی، میرے والد صاحب نے ان کو بیس لاکھ روپے نقد ادا کیے، لیکن بدلے میں انہوں نے تقریباً سترہ جیرب زمین دی اور یہ طے ہوا کہ باقی زمین کا بعد میں دیکھ لیں گے، لیکن اس دوران کافی عرصہ گزرگیا اور یہ معاملہ ایسے ہی رہا۔
اس کے بعد ہمارے والد محترم (خریدار)، بیچنے والا اور اس معاہدے کے ثالث اور گواہ ان سب کا انتقال ہوچکا ہے۔
اب مسئلہ یہ ہوا کہ ہمارا تیس سال سے اس زمین پر قبضہ ہے، ہم اس میں زراعت بھی کرتے آرہے ہیں، لیکن اب چند ماہ قبل جب ہم بھائیوں نے والد محترم کی اس خریدی ہوئی زمین کے ایک آخری کنارے سے چار دیواری کرنا چاہی، تو فروخت کنندہ مرحوم کے بھتیجوں نے یہ کہہ کر دعویٰ کیا کہ یہ ہمارے والد کی زمین ہے، اگرچہ ہمارے چچا نے اس زمین کا یہ حصہ بھی بیچ دیا تھا، لیکن یہ ہماری زمین ہے، حالانکہ یہ لوگ خود ہم سے کافی مرتبہ اس زمین کے خریدنے کا سودا بھی کرچکے ہیں، لیکن ہم نے نہیں بیچی۔
اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس زمین کا حق دار کون ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جائیداد کے مسئلوں میں یک طرفہ بات سن کر کوئی متعین فتویٰ نہیں دیاجاسكتا، نیز آپ کے سوال میں كافی چیزوں میں ابہام ہے، اس لیے اس سلسلے میں اصولی جواب دیا جارہا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ شرعاً صرف اپنی مملوکہ چیز بیچی جاسکتی ہے، کسی اور کی مملوکہ چیز اصل مالک کی اجازت کے بغیر بیچنا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں یہ بیع باطل ہوتی ہے، جسے ختم کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً زمین کا متنازع حصہ بیچنے والے کا نہیں تھا، تو اس متنازع حصہ کی حد تک وہ اس بیع میں فضولی ہیں، جس کی بیع مالک کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، اگر اصل مالک نے اس بیع کی اجازت دے دی تھی، یا خاموش رہ کر اس کی قیمت وصول کرلی تھی، تو ان کی طرف سے یہ اجازت ہے، جس کی وجہ سے یہ بیع پوری زمین میں نافذ ہوگئی تھی، جس کے بعد سے پوری زمین کے مالک آپ ہیں، اور اس میں جو جائز تصرف کرنا چاہیں، وہ کرسکتے ہیں۔
تاہم اگر اصل مالک نے نہ تو اس حصے کی بیع کی اجازت دی، اور نہ ہی اس کی قیمت وصول کی تھی، تو ایسی صورت میں متنازع حصہ کی حد تک یہ بیع باطل ہوگئی، اس صورت میں آپ کے لیے لازم ہے کہ متنازع حصہ اصل مالکان کو واپس کردیں، البتہ اتنے حصے کے تناسب سے اس متنازع حصہ کے برابر جو رقم بنتی ہے، وہ رقم بھی آپ اصل بیچنے والے یا اس کے وارثوں سے واپس لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقہ البیوع: (1196/2، ط: مكتبة معارف القران)
198- البیع الموقوف ما توقف نفاذہ علی إذن غير العاقد.
199- الفضولي من تصرف في حق الغير نيابة عنه بغير إذنه. وبيعه موقوف على إذن من له الإجازة. فإن باع فضولي مال غيره، فالبيع موقوف على إجازة المالك. فإن أجازه نفذ البيع من وقت العقد.
..... 202- الإجازة من قِبل المالك قد تكون قولا بما يدل على رضاه بالبيع، مثل قوله: "أجزت". وقد تكون فعلا، مثل أن يقبل الثمن أو بعضه، أو يهبه للمشتري. أما إن كان حاضرا وقت البيع وسكت، فالسكوت لا يعتبر إجازة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی