عنوان: ملازم کا کمپنی کے لیے مارکیٹ ریٹ سے کم پیسے میں سامان خریدنے کے بعد بقیہ پیسے اپنے پاس رکھنا(9027-No)

سوال: السلام علیکم، سوال یہ ہےکہ ہم کسی ادارے میں ملازم ہیں، ہمارا ڈیپارٹمنٹ خرید و فروخت نہیں ہے اور ادارہ ہمیں کوئی چیز خریدنے کا کہتا ہے اور ہم وہ چیز صحیح نیت سے اپنی پرانی واقفیت اور محنت کے زریعے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت میں خریدتے ہیں، تو کیا جو پیسے بچ جاتے ہیں، وہ اپنے ذاتی مد میں رکھ سکتے ہیں؟ جبکہ ادارہ خود خریدے گا، تو مارکیٹ ریٹ پر خریدے گا۔
جزاک اللہ

جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کی حیثیت وکیل اور امین (امانت دار) کی ہے، ان بچے ہوئے پیسوں کو کمپنی کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھنا امانت میں خیانت، اور ناحق طریقے سے کسی کا مال کھانا ہے، جوکہ شرعا جائز نہیں ہے، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اگر آپ اپنی محنت کی اجرت لینا چاہتے ہوں، تو معاملہ کو صاف رکھتے ہوئے شروع میں ہی اپنی کمپنی کے مالکان سے اس کام کی اجرت طے کرلیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 29)
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ....الخ

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (98/1، ط: دار الجیل)
لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده» فإذا أخذ أحد مال الآخر بدون قصد السرقة هازلا معه أو مختبرا مبلغ غضبه فيكون قد ارتكب الفعل المحرم شرعا.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 609 Jan 05, 2022
mulazim ka company ke / kay liye market rate se / say kam pese / pesey me / mein saman kharidney ke / kay bad baqya pese / pesey apne pas rakhna

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.