سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص نے 34 لاکھ میں جگہ لی، جس میں سے 20 لاکھ ادائیگی کردی، باقی ادائیگی کے لیے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اب وہ یہ چاہتا ہے کہ میں یہ پلاٹ فروخت کردوں اور فروخت کرنے میں جو پیسے ملیں گے، اس سے پہلی پارٹی کی بقیہ پیمنٹ ادا کردوں اور اس کے علاوہ جو پیسے بچے، اس کو اپنے پاس رکھ لوں، تو کیا اس کے لیے ایسا کرنا درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ غیر منقولی اشیاء (جائیداد وغیرہ) پر قبضہ کرنے سے پہلے انہیں آگے فروخت کرنا شرعا جائز ہے، لہذا مذکورہ صورت میں اگر پلاٹ کا سائز، محل قوع اور سیکٹر وغیرہ متعین ہو اور فریقین کے درمیان پلاٹ کی قیمت اور اس کی ادائیگی کی صورت طے پاکر خریداری کا سودا حتمی ہو چکا ہو تو ایسی صورت میں وہ پلاٹ شرعا خریدار کی ملکیت سمجھا جائے گا، لہذا اگر پلاٹ بیچنے والے کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہو تو خریدار اس پلاٹ کو آگے فروخت کرسکتا ہے، اگرچہ کاغذی کاروائی میں وہ پلاٹ خریدار کے نام منتقل (Transfer) نہ ہوا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (23/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
"وإذا حصل الایجاب والقبول لزم البیع..... (ویثبت الملک لکل منہما)"
البحر الرائق: (126/6، ط: دار الكتاب الاسلامي)
قوله (صح بيع العقار قبل قبضه) أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد لا يجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به عملا بدلائل الجواز....
وفي البناية إذا كان في موضع لا يؤمن أن يصير بحرا أو تغلب عليه الرمال لم يجز، وإنما عبر بالصحة دون النفاذ أو اللزوم لأن النفاذ، واللزوم موقوفان على نقد الثمن أو رضا البائع، وإلا فللبائع إبطاله.
شرح المجلة: (المادة: 253، ط: رشیدیة)
للمشتری ان یبیع المبیع لآخر قبل قبضہ ان کان عقارا۔
واشار بقولہ : للمشتری ان یبیع الخ : الی ان بیعہ جائز، لکن لایلزم من جواز البیع نفاذہ ولزومہ؛ فانھما موقوفان علی نقد الثمن او رضی البایع، والا فللبایع ابطالہ - ای ابطال بیع المشتری۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی