سوال:
السلام علیکم، اگر نذر ماننے والا نذر پوری کیے بغیر مرجائے، اس کے بعد ورثاء نذر ادا کریں تو ٹھیک ہے یا نہیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر میت نے مرنے سے پہلے ورثاء کو نذر پوری کرنے کی وصیت نہیں کی ہے، تو ورثاء کے ذمہ وہ نذر پوری کرنا لازم نہیں ہے۔
البتہ اگر بالغ ورثاء اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنی طرف سے میت کی نذر پوری کرلیں، تو اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت سے امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ جل شانہ اس میت پر رحم فرماتے ہوئے، اس نذر کو قبول فرماکر اس کے ذمہ جو واجب تھا، اس سے میت کو بری کردیں گے، اور ان ورثاء کو بھی ثواب عطا فرمائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الحج، الآية: 29)
ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقo
تفسير القرطبي: (50/12، ط: دار الكتب المصرية)
الْحَادِيَةُ وَالْعِشْرُونَ- (وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ) أُمِرُوا بِوَفَاءِ النَّذْرِ مُطْلَقًا إِلَّا مَا كَانَ مَعْصِيَةً، لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ: (لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ)، وَقَوْلُهُ: (مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ).
بدائع الصنائع: (کتاب الوصایا، 330/7، ط: دار الكتب العلمية)
وقال بعضهم: إن كان عليه حج، أو زكاة، أو كفارة، أو غير ذلك من الواجبات فالوصية بذلك واجبة، وإن لم يكن فهي غير واجبة بل جائزة وبه أخذ الفقيه أبو الليث.
فتاوی رحیمیہ: (کتاب الوصیۃ، 243/10، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی