سوال:
مفتی صاحب ! اگر کسی خاتون کا حیض کبھی بند ہی نہ ہو تو وہ نماز کس طرح پڑھے؟
جواب: اگر کسی خاتون کو حیض آنے کے بعد نہ رکے اور دس دن کے بعد بھی خون جاری رہے تو دیکھا جائے گا کہ اس عورت کی حیض کے بارے میں کوئی عادت ہےیا نہیں؟ اگر اس کی سابقہ کوئی عادت ہے تو اس عادت کے مطابق اتنے دن آنے والا خون حیض شمار ہوگا اور اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ ہوگا، اور اگر عورت کی کوئی سابقہ عادت نہیں ہے تو دس دن تک آنے والا خون حیض شمار ہوگا اور اس کے بعد آنے والا خون استحاضہ کا ہوگا، استحاضہ کے دنوں میں عورت روزہ بھی رکھے گی اور نماز بھی پڑھے گی، اگرچہ اس دوران خون جاری ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (65/1، ط: مکتبة رحمانیة)
ولو زاد الدم علی عشرۃ ایام ولھا عادی معروفۃ دونھا، ردت الی ایام عادتھا، والذی زاد استحاضہ۔۔۔۔۔و ان ابتدأت مع البلوغ مستحاضۃً، فحیضہا عشرہ ایام من کل شہر و الباقی استحاضہ۔
الدر المختار: (باب الحیض، 298/1، ط: سعید)
و دم الإستحاضة حکمه کرعاف دائم وقتًا کاملاً لایمنع صومًا و صلاةً و لو نفلاً و جماعاً، لحدیث: توضئي وصلي وإن قطر الدم علی الحصیر۔
و فیه ایضاً: (مطلب في أحکام المعذور، 305/1، ط: سعید)
(وصاحب عذر من به سلس ) بول لايمكنه إمساكه ( أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة ) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع و لو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الإنقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الإبتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الإنقطاع) تمام الوقت (حقيقةً) لأنه الإنقطاع الكامل. (وحكمه: الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - ﴿ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ ﴾ [الإسراء: 78] - (ثم يصلي) به (فيه فرضاً و نفلاً)، فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل)۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی