سوال:
السلام علیکم، ایک کاروباری لین دین میں عبداللہ کو احمد نے 1000 ڈالر ادا کرنےہیں، عبداللہ یہ رقم ڈالر کے بجائے روپوں میں اور قسطوں میں ادا کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ جس دن قسط کی جائے گی، اس دن کا ایکسچینج ریٹ لاگو ہوگا یا دونوں فریقین پہلی قسط کی ادائیگی والے دن کے ایکسچینج ریٹ پر متفق ہو کر باقی اقساط کی ادائیگی کے لیے اسی ریٹ کو استعمال کر سکتےہیں؟
یہ بھی وضاحت فرمادیں کہ ایکسچینج ریٹ اوپن مارکیٹ والا استعمال ہوگا یا انٹربینک والا استعمال ہوگا؟
جواب: اگر کسی کے ذمہ ڈالروں کی ادائیگی لازم ہو، اور وہ واجب الاداء ڈالروں کی ادائیگی پاکستانی کرنسی میں قسطوں کی صورت میں کرنا چاہتا ہے، تو باہمی رضامندی سے ایسا کرنا شرعا درست ہے، ایسی صورت میں ہر قسط کی ادائیگی والے دن ڈالر کا جو ریٹ ہوگا، وہ لگایا جائے گا۔
نیز ایکسچینج ریٹ دونوں میں سے کوئی بھی لگایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقہ البیوع: (739/2، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی)
أما تبادل العملات المختلفۃ الجنس، مثل الربیۃ الباکستانیۃ بالریال السعودی، فقیاس قول الإمام محمد رحمہ اللہ تعالی أن تجوز فیہ النسیئۃ أیضا، لأن الفلوس (وھی الأثمان الاصطلاحیۃ) لو بیعت بجلاف جنسھا من الأثمان مثل الدراھم، فیجوز فیھا التفاضل والنسیئۃ جمیعا، بشرط أن یقبض أحد البدلین فی المجلس، لئلا یؤدی إلی الافتراق عن دین بدین.
وعلی ھذا فإنہ لافرق بین الموقف الثانی والبالث فی موضوع العملات الورقیۃ أنھا یجری فیھا الربا، وتجب فیھا الزکاۃ وتتأدی بھا ویجوز أن تصبح رأس مال فی السلم، ولکن الفرق بین الموقفین إنما یتمحض فی جواز النسیئۃ وعدمہ، فلا تجوز النسیئۃ فی الموقف الثانی وتجوز فی الموقف الثالث، بشرط أن تکون بسعر یوم العقد. وھذا الموقف الثالث ھو الذی اخترتہ فی رسالتی "أحکام الأوراق النقدیۃ"
واللہ تعالٰی أعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی