سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! کیا علاج کے طور پر نہار منہ گرم پانی پینا شریعت کی رو سے منع ہے؟
اکثر لوگ منع کرتے ہیں کہ قرآن میں جہنمیوں کے لئے گرم پانی کا ذکر ہے، کیا کسی حدیث یا روایت میں گرم پانی کی ممانعت ہے؟
جواب: نہار منہ گرم پانی پینا کس کے لیے مفید ہے اور کس کے لیے نقصان دہ؟ اس بارے میں اطباء کرام ہی فیصلہ کر سکتے ہیں، اس کا تعلق حلال و حرام سے نہیں ہے، بلکہ علاج و معالجہ سے ہے، لہذا اگر ماہر طبیب نے کسی انسان کے مزاج کو دیکھتے ہوئے علاج کے طور نہار منہ گرم پانی پینا تجویز کیا ہو، تو اس طبیب کی ہدایت کے مطابق ایسا کرنے میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے۔
البتہ ایسا گرم پانی پینا، جو جسم کو تکلیف پہنچائے، اس سے حدیث شریف میں ممانعت آئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند أحمد: (رقم الحدیث: 17426، 638/28، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
حدثنا حسن حدثنا ابن لهيعة حدثنا الحارث بن يزيد عن عبد الرحمن بن جبير عن عقبة بن عامر قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكي وكان يكره شرب الحميم وكان إذا اكتحل اكتحل وترا وإذا استجمر استجمر وترا.
قال السندی فی شرحہ: قولہ: "وکان یکرہ شرب الحمیم" أی: شرب الماء الحار.
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی