سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! ایک بندہ کسی گناہ کے کام میں مبتلا تھا، تو اس نے قسم کھائی کہ اگر پھر مجھ سے یہ کام ہوا ، یا جب بھی ہوا تو مجھ پر دوسو روپیہ نذر ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ بندہ کب تک پیسے دیگا، جب بھی کام ہوجائے یا صرف ایک مرتبہ پیسے دینے سے ذمہ فارغ ہو جاتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ اس گناہ سے سخت توبہ بھی کی ہے، پھر بھی مجھ سے ہوجاتا ہے۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں نذر منعقد ہوگئی ہے، لہذا اگر یہ الفاظ کہے ہیں کہ "اگر پھر مجھ سے یہ کام ہوا، تو مجھ پر دو سو روپے نذر ہیں" تو اس صورت میں ایک دفعہ گناہ ہونے پر دو سو روپے صدقہ لازم ہوگا اور اگر یہ الفاظ کہے کہ"جب بھی یہ کام ہوا، تو دو سو روپے نذر ہے" تو اس صورت میں جب کبھی بھی گناہ ہوجائے، تو ہر بار دو سو روپے صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (320/4، ط: دار الكتاب الإسلامی)
"( قوله: ومن نذر نذرًا مطلقا، أو معلقًا بشرط ووجد وفى به) أي وفى بالمنذور؛ لقوله عليه السلام: {من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى} وهو بإطلاقه يشمل المنجز والمعلق؛ ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده أطلقه، فشمل ما إذا علقه بشرط يريد كونه أو لا، وعن أبي حنيفة أنه رجع عنه، فقال: إن فعلت كذا فعلي حجة، أو صوم سنة، أو صدقة ما أملكه أجزأه عن ذلك كفارة يمين، وهو قول محمد، ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضًا إذا كان شرطًا لايريد كونه؛ لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر، فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء، بخلاف ما إذا كان شرطًا يريد كونه كقوله: إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه، قال في الهداية: وهذا التفصيل هو الصحيح، وبه كان يفتي إسماعيل الزاهد، كما في الظهيرية. وقال الولوالجي: مشايخ بلخ وبخارى يفتون بهذا، وهو اختيار شمس الأئمة - ولكثرة البلوى في هذا الزمان -".
و فیه ایضاً: (15/4)
"( قوله: ففيها إن وجد الشرط انتهت اليمين) أي في ألفاظ الشرط إن وجد المعلق عليه انحلت اليمين، وحنث وانتهت؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغةً فبوجود الفعل مرةً يتم الشرط، ولايتم بقاء اليمين بدونه، وإذا تم وقع الحنث فلايتصور الحنث مرةً أخرى إلا بيمين أخرى أو بعموم تلك اليمين".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی