سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! ایک ہاؤسنگ اسکیم کا کنٹریکٹ ہے، جس میں بلڈر پوری رقم ملنے پر ماہانہ کرایہ دیتا ہے، بلڈنگ کا کام شروع ہو چکا ہے، اور سوال کرنے والے کا کہنا ہے کہ کیا یہ کرایا جو بلڈر ان کو دے گا، کیا وہ ٹھیک ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت استصناع (آرڈر پر کوئی چیز بنوانے) کی ہے٬ جب مطلوبہ فلیٹ/دوکان وغیرہ کے اوصاف معلوم اور متعین ہوں٬ اور اس کے عوض طے شدہ قیمت اور قسطوں کی صورت میں اس کی ادائیگی کی مدت بھی معلوم اور متعین ہو٬ تو اس طرح بلڈر سے خریداری کا معاملہ بذات خود شرعا درست ہے۔
البتہ ساری قیمت ایڈوانس دینے کی صورت میں بلڈر سے ہر مہینے کرایہ کی مد میں رقم لینا جائز نہیں٬ کیونکہ مذکورہ صورت میں جب فلیٹ/دوکان تعمیر ہی نہیں ہوئے ہیں، تو کرایہ کو اس کا عوض قرار نہیں دیا جا سکتا۔
تاہم اگر بلڈر چاہے تو طے شدہ قیمت میں تخفیف (discount) کر سکتا ہے، جیسا کہ منسلکہ ایگریمنٹ میں اسے ڈسکاؤنٹ ہی قرار دیا گیا ہے، لہذا ڈیلر کی طرف سے ہر ماہ قیمت میں ڈسکاؤنٹ کے طور پر مخصوص رقم واپس کرنا (جسے فقہی لحاظ سے حط ثمن کہا جاتا ہے) شرعا درست ہے، یہ سود کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
واضح رہے کہ یہ جواب منسلکہ ایگریمنٹ کے مطابق دیا گیا ہے، جس میں ماہانہ ملنے والی رقم کو ڈسکاؤنٹ قرار دیا گیا ہے، جو کہ درست ہے۔
جبکہ منسلکہ پمفلٹ میں ماہانہ ملنے والی رقم کو کرایہ (Rental income) کا نام دیا گیا ہے، چونکہ شرعی طور اس رقم کو کرایہ قرار دینا درست نہیں ہے، لہذا اسے کرایہ کا نام نہ دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ التاتارخانیة: (400/9، ط: زکریا)
یجب أن یعلم بأن الاستصناع جائز في کل ما جری التعامل فیہ
شرح المجلة: (المادة: 388)
اذا قال رجل لواحد من أہل الصنائع إصنع لي الشیئ الفلاني بکذا قرشاً وقبل الصانع ذٰلک انعقد البیع استصناعاً مثلاً تقاول مع نجارٍ علی أن یصنع لہ زروقاً أو سفینۃً وبین طولہا وعرضہا وأوصافہا اللازمۃ وقبل النجار انعقد الاستصناع
الهداية: (266/6، ط: مکتبة البشری)
الإجارۃ عقد علی المنافع بعوض … ولا یصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ … وتارۃ تصیر المنفعۃ معلومۃ بالتعیین"
و فیها ایضاً: (باب المرابحة و التولیة، 167/5، ط: مکتبة البشریٰ)
یجوز للبائع أن یزید للمشتري في المبیع، ویجوز أن یحط من الثمن
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی