سوال:
محترم مفتی صاحب! میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور بکریوں کا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میرا مقصد دودھ دینے والی بکریاں خریدنا اور ان لوگوں کو دینا ہے جو اپنے بچوں کو دودھ فراہم کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس معاہدے کو ایک تحریری دستاویز کی صورت میں ترتیب دیا جائے گا، جس میں بکری کی قیمت لکھی جائے گی اور دونوں فریق (میں اور وصول کنندہ) درج ذیل شرائط و ضوابط پر رضامند ہوں گے:
1) بکری میری ملکیت رہے گی۔ (2) بکری کے بچے بھی میری ملکیت ہوں گے۔ (3) دودھ وصول کنندہ کے استعمال کے لیے ہوگا، اور بکری کی تمام دیکھ بھال کی ذمہ داری وصول کنندہ پر ہوگی۔ (4) اگر بکری مر جائے تو وصول کنندہ بکری کی متفقہ قیمت ادا کرے گا۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ براہ کرم رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ طریقہ کار اسلام میں درست ہے؟
جواب: سوال میں ذکردہ معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، کیونکہ بنیادی طور پر یہ معاملہ "اجارہ" کا ہے کہ دودھ کے عوض بکری کی دیکھ بھال کرنے اور پالنے کا معاملہ کیا جارہا ہے، چونکہ اس کا عوض یعنی دودھ کی مقدار متعین نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی دورانیہ طے کیا گیا ہے، نیز بکری کی دیکھ بھال کرنے والے کی غلفت و کوتاہی کے بغیر بکری مرجانے کی صورت میں اس بکری کی قیمت وصول کرنے کی شرط لگانا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔
البتہ اس کے جائز متبادل کے طور پر یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ آپ آدھا جانور اس شخص کو متعین قیمت کے عوض بیچ دیں، پھر اس کی قیمت چاہیں معاف کردیں یا موخر کردیں، اس طریقے سے بکری میں آپ دونوں کی شراکت ہوجائے گی، نیز بکری کے اخراجات اور منافع (دودھ وغیرہ) دونوں کے درمیان مشترک ہوجائیں گے، پھر باہمی رضامندی سے اگر ایک فریق بکری کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لے اور دوسرا فریق اپنے حصہ کا دودھ اسے استعمال کی اجازت دیدے تو یہ معاملہ شرعاً درست ہوجائے گا، البتہ بکری مرجانے کی صورت میں مطلقاً اسے ضامن ٹھہرانا شرعاً درست نہیں ہوگا، بلکہ اگر اس کی غلفت و کوتاہی کے بغیر بکری مر جائے تو اس کا نقصان دونوں شرکاء برداشت کریں گے، تاہم اس موقع پر اگر ایک فریق اپنی خوشدلی سے نقصان برداشت کرلے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، لیکن پہلے سے ہی بکری کی قیمت کا اسے ذمہ دار قرار دینے کی شرط لگانا درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (335/2، ط. رشيدية)
و على هذا إذا دفع البقرة إلى الإنسان بالعلف ليكون الحادث بينهما نصفين، فما حدث فهو لصاحب البقرة، و لذلك الرجل مثل العلف الذي علفها و أجر مثله فيما قام عليها، و على هذا إذا دفع دجاج إلى الرجل بالعلف ليكون البيض بينهما نصفين، والحيلة في ذلك أن يبيع نصف البقرة من ذلك الرجل و نصف الدجاجة و نصف بذر الفيلق بثمن معلوم حتى تصير البقرة و أجناسها مشتركة بينهما، فيكون الحادث منها على الشركة، كذا في الظهيرية·
الفتاوی الهندية: (446/4، ط: دار الفكر)
دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافا فالإجارة فاسدة وعلى صاحب البقرة للرجل أجر قيامه وقيمة علفه إن علفها من علف هو ملكه لا ما سرحها في المرعى ويرد كل اللبن إن كان قائما وإن أتلف فالمثل إلى صاحبها لأن اللبن مثلي وإن اتخذ من اللبن مصلا فهو للمتخذ ويضمن مثل اللبن لانقطاع حق المالك بالصنعة. والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی