سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! زکوٰۃ کے حوالے سے ایک مسئلہ ہے کہ ایک شخص گورنمنٹ جاب کرتا ہے، تنخواہ آتی ہے، مگر وہ نہیں رکھتا، بلکہ اس کی فیملی استعمال کرتی ہے، اور کرائے کے مکان کے بھی پیسے آتے ہیں، مگر یہ پیسے بھی وہ استعمال نہیں کرتا، کچھ گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے سارے فائنانشل معاملات ختم کردیئے ہیں، اور اب اس کے پاس ایک وقت کا کھانا کھانے کے بھی پیسے نہیں ہوتے، تو کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟ وضاحت فرمادیں۔
جواب: مذکورہ شخص کی آمدنی چونکہ ضروریات میں خرچ ہوجاتی ہے، اس لیے اگر اس کی ملکیت میں سونا، چاندی، مالِ تجارت، نقدی یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد اشیاء اتنی مقدار میں موجود نہ ہوں، جن کی کل مالیت ساڑے باون تولہ چاندی کے برابر پہنچتی ہو، تو اسے زکوٰۃ دینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (187/1، ط: دار الفكر)
(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير. التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل كذا في الزاهدي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی