سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! گورنمنٹ کی طرف سے سرکاری ملازمین کے لیے مکان بنانے پر قرضہ کی مخصوص شرائط کے ساتھ سہولت دی جارہی ہے،
جسکی تفصیل یہ ہے کہ ملازم اپنے پلاٹ کو بینک کے نام پر باقاعدہ رجسٹری کے ساتھ۔ رہن کی صورت میں منتقل کریگا، اور بلدیہ سے نقشہ بھی پاس کروا کر ساتھ لف کرنا ہوگا، پھر اس نقشہ کے مطابق مکان بنانے کا بھی پابند ہوگا۔
باقی اپنی ملازمت کے حوالے سے بھی ضروری کاغذات وغیرہ بینک دس سال کے لیے دس لاکھ روپے اس ملازم کو دیگا، جو کہ ماہانہ دس ہزار روپے قسط کی صورت میں جمع کروانے ہوں گے، یوں دس سال کے بعد بارہ لاکھ پچاس ہزار روپے واپس کریگا، جبکہ لیے دس لاکھ تھے، کیا شرعی طور پر یہ معاملہ جائز ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمادیں۔
جواب: اگر سوال میں ذکر کردہ معاملہ کسی سودی بینک کے ساتھ کیا ہے، تو چونکہ سودی بینک گھر بنانے کیلئے سود پر قرض دیتا ہے، اس لئے اس کے ساتھ یہ معاملہ کرنا ناجائز اور حرام ہے، جس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ ایسا اسلامی بینک جو شرعی اصولوں کے مطابق مستند علماء کرام کی زیر نگرانی کام کر رہا ہو، تو ان سے گھر کی خریداری کا معاملہ کرنا شرعا درست ہے، کیونکہ اسلامک بینکنگ کیلئے مستند علماء کرام نے شریعت کے اصولوں کے مطابق ایک نظام تجویز کیا ہے، اور قانونی طور پر بھی اسلامی بینکوں پر اس نظام کی پابندی لازم ہے، لہذا جو غیر سودی بینک مستند علماء کرام کی نگرانی میں شرعی اصولوں کے مطابق معاملات سر انجام دے رہے ہیں، تو ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ ہماری معلومات کے مطابق کوئی بھی اسلامی بینک گھر وغیرہ کیلئے کسی کو قرضہ نہیں دیتا٬ بلکہ کسی اسلامی طریقہ تمویل (Islamic mode of financing) جیسے شرکت متناقصہ (Diminishing Musharakah ) وغیرہ کے طور پر گھر خریدنے کا معاملہ کرتا ہے، جسے مستند علماء کرام نے جائز قرار دیا ہے۔
لہذا مستند علماء کرام کی زیر نگرانی چلنے والے غیر سودی بینک کے ساتھ گھر کی خریداری کا معاملہ کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیة: 275)
وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا....الخ
و قوله تعالیٰ: (آل عمران، الآیة: 130)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی