سوال:
مفتی صاحب ! ملازم کو ایک ماہ کی اضافہ تنخواہ دے کر کوئی وجہ بتائے بغیر کام سے نکال دینا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کسی ادارے میں ملازم کو مقررہ مدت (مثلاً: مہینہ یا سال وغیرہ) کی بنیاد پر ملازمت کے لیے رکھا جاتا ہو تو ایسے ادارے میں ملازم کو مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے بغیر کسی شرعی عذر کے ملازمت سے نکالنا جائز نہیں ہے۔
ہاں! اگر کوئی عذر شرعی ہو، مثلاً: ملازم مجنون ہوجائے یا معذور ہوجائے یا اسے ایسی بیماری لگ جائے کہ وہ کام کاج کا نہ رہے یا اس پر کام چوری یا کام میں خیانت ثابت ہوجائے وغیرہ تو ان اعذار کی بنا پر ادارے کو مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے بھی ملازم کو ملازمت سے نکالنا کا اختیار حاصل ہے، البتہ اگر اسے کسی جرم ( چوری وغیرہ) کی وجہ سے نکالا جارہا ہے تو ایسی صورت میں ملازم کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دینا ضروری ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر آپ کو ادارے نے ملازمت کی مقررہ مدت پوری ہونے پر یا مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے کسی شرعی عذر کی وجہ سے ملازمت سے نکالا ہے تو ادارے کو یہ اختیار حاصل ہے، لیکن اگر ادارے نے آپ کو مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے ہی بلا کسی شرعی عذر کے ملازمت سے نکالا ہے تو ان کا اس طرح کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (انواع شرائط ركن الاجارة، 182/4، ط: دار الكتب العلمية)
ولو قال: أجرتك هذه الدار سنة كل شهر بدرهم جاز بالإجماع؛ لأن المدة معلومة والأجرة معلومة فلا يجوز - ولا يملك أحدهما - الفسخ قبل تمام السنة من غير عذر.
و فيه ايضاً: (انواع شرائط ركن الاجارة، 195/4، ط: دار الكتب العلمية)
ومنها: أن لا يكون بالمستأجر عيب في وقت العقد أو وقت القبض يخل بالانتفاع به فإن كان؛ لم يلزم العقد حتى قالوا في العبد المستأجر للخدمة إذا ظهر أنه سارق له أن يفسخ الإجارة؛ لأن السلامة مشروطة دلالة فتكون كالمشروط نصا كما في بيع العين.
ومنها أن يكون المستأجر مرئي المستأجر حتى لو استأجر دارا لم يرها ثم رآها فلم يرض بها أنه يردها؛ لأن الإجارة بيع المنفعة فيثبت فيها خيار الرؤية كما في بيع العين فإن رضي بها بطل خياره كما في بيع العين.
وأما الثاني: فنوعان أحدهما: سلامة المستأجر عن حدوث عيب به يخل بالانتفاع به فإن حدث به عيب يخل بالانتفاع به لم يبق العقد لازما حتى لو استأجر عبدا يخدمه أو دابة يركبها أو دارا يسكنها فمرض العبد أو عرجت الدابة أو انهدم بعض بناء الدار فالمستأجر بالخيار إن شاء مضى على الإجارة وإن شاء فسخ بخلاف البيع إذا حدث بالمبيع عيب بعد القبض أنه ليس للمشتري أن يرده.
لأن الإجارة بيع المنفعة والمنافع تحدث شيئا فشيئا فكان كل جزء من أجزاء المنافع معقودا مبتدأ فإذا حدث العيب بالمستأجر كان هذا عيبا حدث بعد العقد قبل القبض وهذا يوجب الخيار في بيع العين كذا في الإجارة .
و فيه ايضاً: (فصل فی صفة الإجارة، 201/4، ط: دار الكتب العلمية)
وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، فلا تفسخ من غير عذر وقال شريح: إنها غير لازمة وتفسخ بلا عذر؛ لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع وقال - سبحانه وتعالى - {أوفوا بالعقود} [المائدة: 1] والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد وقال عمر: - رضي الله عنه - " البيع صفقة أو خيار " جعل البيع نوعين: نوعا لا خيار فيه، ونوعا فيه خيار، والإجارة بيع فيجب أن تكون نوعين، نوعا ليس فيه خيار الفسخ، ونوعا فيه خيار الفسخ؛ ولأنها معاوضة عقدت مطلقة فلا ينفرد أحد العاقدين فيها بالفسخ إلا عند العجز عن المضي في موجب العقد من غير تحمل ضرر كالبيع.
احسن الفتاوی: (کتاب الاجارۃ، 284/7- 295، ط: سعید)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی