عنوان: وراثت کی غلط تقسیم کی ایک صورت اور آدھی زمین بلڈر کو دینے کے بدلے باقی آدھی زمین پر سات فلیٹ تعمیر کرانے کا حکم (9168-No)

سوال: السلام علیکم! سوال یہ ہے کہ میرے نانا کی جائیداد کی تقسیم ہو رہی ہے، جو کہ ایک مکان کی صورت میں ہے، جس کے وارثین کی تعداد نو ہے، چھ بیٹے، تین بیٹیاں ہیں، جن کی رضا مندی سے یہ فیصلہ طے پایا کہ ہم اس کو گرا کر فلیٹ بنا کر آپس میں تقسیم کریں گے، گراؤنڈ پلس five چھ بیٹوں کو ایک ایک فلیٹ دیا جائے گا، چھٹا فلور فروخت کر کے بیٹیوں کو فلیٹ کی مالیت کے حساب سے رقم دی جائے گی، اور بیٹے فلیٹ لے کر جو رقم ان کے حصے میں آئے گى، وه بہنوں کو دى جائے گی، یہ معاہدہ طے ہوا کہ آٹھ ماہ میں فلیٹ کی تعمیر کی جائے گی اور بلڈر کو پلاٹ اس معاہدے پر دے دیا گیا کہ وه ہمیں گراؤنڈ پلس سکس (سات فلیٹ) دے گا اور گراؤنڈ پلس سکس (ساتواں فلیٹ) خود لے گا، جس کی رقم( فلیٹوں کی مالیت) بھی لکھ لی گئی تھی، لیکن آج سال ہوگیا، تعمیر مکمل نہیں ہوئی، ایک اندازے سے گیارہ بارہ ماہ اور درکار ہیں، اس دوران قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، اور حکومت گراؤنڈ پلس فور سے اوپر فلیٹ بننے نہیں دے رہى، ابھی بلڈنگ گراؤنڈ پلس وَن بن چکی ہے، باقی پانچ بھائی تو فلیٹوں میں جانے کے لیے تیار ہیں ایک بھائی اور تین بہنوں کا حصہ خطرے میں نظر آرہا ہے۔
1: اس کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
2:کیا بہنوں کو قیمت لینے پر مجبور کیاجاسکتا ہے؟
3: بلڈر کے ساتھ ہونے والے معاملےکا کیا حکم ہے؟
رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراً
تنقیح:
محترم ، اس سوال میں کوئی امور مبہم ہیں، جن کے جواب کے لیے درج ذیل امور کی وضاحت مطلوب ہے:
1: تعمیر پر آنے والے اخراجات کوئی ایک وارث برداشت کر رہا ہے، یا سب ورثاء کررہے ہیں؟
2: بلڈر کو اجرت میں ایک فلیٹ دینے کا معاہدہ ہوا، یا یہ کہ اس کی اجرت الگ سے طے کی گئی ہے؟
3: نانا کے انتقال کے وقت سوال میں ذکر کردہ ورثاء کے علاوہ ان کی بیوی، والدین، دادا، دادی، نانی میں سے کوئی زندہ تھا یا نہیں؟
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
جواب تنقیح:
1: اس کے اخراجات کوئی برداشت نہیں کر رہا، یہ سب خرچہ بلڈر کے ذمہ ہے۔
2: بلڈر کوالگ سے کوئی اجرت نہیں دے رہے، بلکہ ہم اسے آدھی زمین اور اس کے اوپر کے سات فلیٹ جو وہ تعمیر کرے گا دے رہے ہیں، اور وہ اس کے عوض ہمیں سات فلیٹ تعمیر کرکے دے رہا ہے۔

جواب: (1)۔ واضح رہے کہ وراثت کی تقسیم میں اصل اصول تو یہ ہے کہ شرعی حصوں کے مطابق فوری تقسیم کردی جائے، تاکہ کسی کا حق نہ مارا جائے، اور ہر ایک کو اس کا حصہ پورا پورا مل جائے۔
تاہم اگر سارے حصہ دار عاقل بالغ ہوں، اور وہ بغیر کسی دباؤ کے باہمی رضامندی سے فوری تقسیم کے بجائے یہ طے کریں کہ بلڈنگ بنا کر اسے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں گے، تو اس حد تک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن پوچھی گئی صورت میں تقسیم کا جو طریقہ اختیار کیا گیاہے، اس میں کئی ایک شرعی خرابیاں ہیں، مثلا یہ کہ :
1) اس تقسیم میں متوقع فلیٹس کو بننے سے پہلے ہی تقسیم کردیا گیا کہ بیٹے نیچے کی پانچ منزلیں لے لیں گے، جب کہ بہنوں کو چھٹی منزل کی قیمت دی جائے گی۔
2)سوال میں ذکر کردہ تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان فلیٹس کی مالیت پہلے سے طے کر دی گئی، اور تقسیم بھی اپنی طے شدہ قیمت کے مطابق کی گئی ہے، جبکہ اس میں غرر (غیر یقینی صورتحال) ہے کہ یہ مستقبل میں یہ سارے فلیٹس بنیں گے یا نہیں؟ نیز بننے کے بعد ان کی مالیت آج طے کردہ مالیت کے مطابق رہے گی یا اس سے کم یا زیادہ ہوگی؟
ان شرعی خرابیوں کی وجہ سے تقسیم کا یہ مخصوص طریقہ درست نہیں ہے، لہذا سوال میں ذکر کردہ صورتحال میں شرعی حکم یہ ہے کہ یہ زمین اور اس پر بننے والی پوری عمارت میں سارے ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے ہی شریک ہیں۔
نیز جو عمارت ابھی مزید تعمیر ہوگی، اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اس میں بھی سارے ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کے تناسب سے شریک ہوں گے، اس لیے موجودہ عمارت میں اگر باہمی رضامندی سے کچھ ورثاء رہائش رکھنا چاہیں، تو دیگر ورثاء کی جانب سے انہیں طے شدہ کرایہ دینے کا پابند کیا جاسکتا ہے۔
شرعی حصوں کا تناسب وارثوں کی تفصیل بتا کر دارالافتاء سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
(2)۔جائیداد کی شریعت کے مطابق تقسیم کے بعد اور بہنوں کو اصل عمارت میں سے حصہ دیئے جانے کے بعد بہنوں کو دونوں اختیار ہیں، وہ چاہیں تو اصل عمارت میں سے بھی اپنا حصہ لے سکتی ہیں، ایسی صورت میں قیمت لینے پر انہیں مجبور نہیں کیا جاسکتا، اور اگر اس کے بجائے قیمت لینا چاہیں، تو اس کا بھی انہیں اختیار ہے۔
(3)۔ بلڈر سے جو معاملہ ہوا، اس کا حاصل یہ ہے کہ آدھی زمین کے بدلے وہ سات فلیٹ تعمیر کرکے دے، اگر اس میں کوئی اور شرعی قباحت نہ ہو، نیز یہ معاملہ سارے عاقل بالغ ورثاء کی رضامندی سے ہوا ہو، تو فی نفسہٖ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، نیز اگر قانون کی خلاف ورزی نہ ہو، تو اسے مکمل کرکے دینا بلڈر کی ذمہ داری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء: الایة: 11)
‌يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءٗ فَوۡقَ ٱثۡنَتَيۡنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَۖ ....

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر: (المادة: 1073، 26/3، ط: دار الجيل)
(تقسيم ‌حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم ‌حاصلات ‌الأموال ‌المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه ‌الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة (88).

الهندية: (448/6، ط: دار الفكر)
وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 592 Jan 20, 2022

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.