سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ مجھے اس مسئلہ کے بارے میں فتویٰ عنایت فرمادیں۔
ہمارے والد صاحب کا انتقال 07 جنوری 2002ء کو ہوگیا تھا۔وراثت میں 110 گز کا مکان،کچھ نقدی، سونا اور چاندی چھوڑا تھا۔ ہم پانچ 5 بہنیں اور چار 4 بھائی ہیں، والدہ کا انتقال 1997ء میں ہوچکا ہے۔ دو بھائیوں نے والد صاحب کی زندگی میں ہی گھر کے کچھ حصہ میں دکان کرلی تھی۔ والد کے انتقال کے وقت ایک بہن اور دو بھائی غیر شادی شدہ تھے۔ والد کے انتقال کے بعد بھائیوں نے اسی وراثت کے پیسوں سے اپنی اور بہن کی شادی کروائی۔ بیس سال سے وہاں رہے بھی رہے ہیں، اور تین بھائی اس سے کما بھی رہے ہیں، بڑے بھائی نے ہم سے پوچھے بغیر اسی مکان میں اوپر کمرہ بناکر اپنے بیٹے کی بھی شادی کردی ہے۔ جبکہ بہنیں پریشان ہیں انہیں پیسوں کی ضرورت ہے۔ کئی سالوں سے ان سے وراثت تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے، مگر حالات خراب ہونے کا بہانہ بنا کر وراثت بھی تقسیم نہیں کر رہے۔
والد کے انتقال کے چند سال بعد انہوں نے ہر بہن کو 25000 ہزار اور ہر ایک بھائی کو 50000 ہزار روپے حصہ کے نام کے دیدیئے، گویا یہ ہمارا پورا حصہ ہوگیا ہے۔
اب بیس 20 سال گزرنے کے بعد بہت زور ڈالا گیا تو انہوں نے 14 دسمبر 2021ء کو ایک میٹنگ بلائی۔ اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ گھر اوپر چار مالے تک بنے گا، ہر بھائی کا ایک فلور ہوگا، اور نیچے دو گودام بنیں گے، جس میں ایک بیچ کر بہنوں کا حصہ دے دیا جائے گا۔ اور دوسرا بیچ کر بھائیوں کے گھر تعمیر ہونگے۔
بیس سال سے اس میں رہ رہے ہیں، کاروبار بھی کر رہے ہیں شادیاں بھی کیں۔ اور والد صاحب نے بڑے بھائی کو پندرہ تولہ سونا بھی دیا تھا۔
میں کراچی میں رہتی ہوں، بیوہ خاتون ہوں، میرا کوئی بیٹا بھی نہیں ہے شوہر کچھ چھوڑ کر بھی نہیں گئے، کرایہ کے گھر میں رہتی ہوں۔ تین بیٹیاں تھیں جن کی شادیاں کردی ہیں۔ تیسرے نمبر کی بیٹی ابھی چار ماہ پہلے بیوہ ہوگئی ہے، ایسے میں میرے بھائیوں کا یہ فیصلہ کرنا کہ مجھے صرف دس لاکھ ہی دیں۔ اس مسئلہ کے بارے میں وضاحت فرمادیں کہ شرعاً ان کا یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں؟
جواب: قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
"مردوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو والدین اور قریب ترین رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، چاہے وہ (ترکہ)تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔"
(سورۃ النساء، آیت نمبر: 7)
قرآن کا یہ حکم بالکل واضح اور دو ٹوک ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے والد صاحب نے اپنے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد، مثلاً مکان وپلاٹ، سونا چاندی، نقدرقم، مالِ تجارت، کپڑے، برتن، غرض ہر طرح کا جو چھوٹا بڑا سازو سا مان چھوڑا ہے، اس میں ان کے کفن دفن سے متعلق ضروری خرچے نکالنے اور اگر کوئی قرضہ وغیرہ ہو، تو اس کو ادا کرنے کے بعد وہ تمام اموال و جائیداد مرحوم والد صاحب کا ترکہ شمار کیا جائے گا، جس میں بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کا حصہ ہے، اور یہ حصے خود اللہ کے مقرر کیے ہیں، لہذا کسی ایک وارث کا اس جائیداد پر قبضہ جما کر بیٹھنا، اور پھر ٹھیک ٹھیک حساب کیے بغیر اندازوں سے تقسیم کرنے کا فیصلہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے، جس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
نیز ترکہ میں سے جن ورثاء نے دوسروں کی اجازت کے بغیر خرچ کیا ہے، وہ اس کے ضامن ہیں، اس لیے شرعاً ضروری ہے کہ والد صاحب کی ساری جائیداد کو سارے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایۃ: 7)
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ أَوۡ كَثُرَۚ نَصِيبٗا مَّفۡرُوضٗاO
السراجی فی الميراث: (ص: 7، ط: مکتبۃ البشریٰ)
تتعلق بتركة الميت حقوق اربعة مرتبة أولا يبدأ بتكفينه وتجهيزه۔۔۔۔ثم تقضی ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقي.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی