عنوان: بیوی کو غیر شرعی رسومات سے روکنے میں سختی سے کام لینے کا حکم (9223-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو رسومات منانے سے منع کرے، جیسےسالگرہ یا بچے کی ولادت کے چالیس دن بعد کی جانے والی رسم وغیرہ، اسی طرح دیگر دین کے خلاف باتوں سے منع کرے، مگر انہی دنوں بیوی کے والدین گھر پر آجائیں اور ان رسومات کو کرنے پر اصرار کریں، بیوی اپنے والدین کو روک بھی نہیں سکتی، جس سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑا تک کی نوبت آجائے تو ایسی صورت میں شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟ جبکہ اس سے بچوں کی تربیت میں خرابی کا بھی اندیشہ ہو۔

جواب: دین کی طرف بلانے، نیکی کی دعوت دینے اور گناہ سے منع کرنے میں حکمت، بصیرت، نرمی و شفقت سے کام لینا چاہیے، اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:"اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو, جو بہترین ہو۔ یقینا تمہارا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے, جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں، اور ان سے بھی خوب واقف ہے, جو راہ راست پر قائم ہیں"۔ (سورۃ النحل، آیت نمبر:125)
غورکیا جائے تو اس آیت مبارکہ میں دین کی طرف بلانے کے لیے احسن انداز اپنانے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ سختی، تلخی اور بدزبانی کے ساتھ دی گئی دعوت عام طور پر مؤثر نہیں ہوتی ہے، اور خاص کر میاں بیوی کے معاملے میں تو زیادہ نرمی کا معاملہ کرناچاہیے، کیونکہ سختی سے نفرتیں اور کدرورتیں پیدا ہوتی ہیں، لہذا شوہر کو چاہیے کہ پیار و محبت، حکمت و بصیرت اور نرمی کے ساتھ غیر شرعی رسومات کے نقصانات سے بیوی کو آگاہ کرے اور اس کے دل میں شریعت کی اہمیت پیدا کرنے کی کوشش کرے، بے جا سختی سے اجتناب کرے۔
بہشتی زیور، حیوة المسلمین، فضائل اعمال، جزاء اعمال جیسی کتابوں کا گھر میں سننے سنانے اور مطالعہ کا ماحول بنائیں۔ ان شاء اللہ اس سے فائدہ ہوگا۔
نیز شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے روک دے اور قطع تعلق کرادے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

التفسیر المنیر لوھبۃ الزحیلی: (271/14، ط: دار الفکر)
الدعوة إلى دين الله وتوحيده أو الاعلام بها أمر ضروري للعلم بها، لذا كانت هي المهمة الأساسية للرسل عليهم السلام، فأمر الله رسوله صلّى الله عليه وسلّم أن يدعو الناس إلى الله بالحكمة قائلا: ادْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ.. أي ادع أيها الرسول الناس إلى شريعة ربك، وهي الإسلام بالحكمة، أي بالقول المحكم، والموعظة الحسنة، أي بالعبر والزواجر التي تؤثر بها في قلوبهم، ذكّرهم بها ليحذروا بأس الله تعالى.
وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ أي وخاصمهم بالخصومة التي هي أحسن من
غيرها، ومن احتاج منهم إلى مناظرة وجدال، فليكن بالوجه الحسن برفق ولين وحسن خطاب، واصفح عمن أساء في القول، وترفّق بهم في الخطاب، وقابل السوء بالحسنى، واقصد من الجدال الوصول إلى الحق، دون رفع الصوت، وسب الخصم أو الأذى، كما قال تعالى: وَلا تُجادِلُوا أَهْلَ الْكِتابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ الآية [العنكبوت 29/ 46] .
فهذا أمر للنبي صلّى الله عليه وسلّم بلين الجانب ولطف الخطاب، كما أمر به موسى وهارون عليهما السلام حين بعثهما إلى فرعون في قوله: فَقُولا لَهُ قَوْلًا لَيِّناً، لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشى [طه 20/ 44] فعلى كل داعية امتثال هذا الأمر الإلهي في دعوته.
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ أي قد علم الله الشقيّ منهم والسعيد، ومن حاد عن منهج الحق، ومن اهتدى إليه، وهو مجازيهم على ضلالهم واهتدائهم حين لقاء ربهم، فله الجزاء، لا إليك يا محمد ولا إلى غيرك، وليس عليك هداهم، إنما عليك البلاغ، وعلينا الحساب، كما قال تعالى: إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ، وَلكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ [القصص 28/ 56] وقال:
لَيْسَ عَلَيْكَ هُداهُمْ، وَلكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ [البقرة 2/ 272] . والآية مشتملة على وعد ووعيد.
ومن رفق النبي صلّى الله عليه وسلّم في الدعوة
ما رواه أبو أمامة: أن غلاما شابا أتى النبي صلّى الله عليه وسلّم، فقال: يا نبي الله، أتأذن لي في الزنى؟ فصاح الناس به، فقال النبي صلّى الله عليه وسلّم: قربوه إذن، فدنا حتى جلس بين يديه، فقال النبي صلّى الله عليه وسلّم: أتحبه لأمك؟
قال: لا، جعلني الله فداك. قال: وكذلك الناس لا يحبونه لأمهاتهم، أتحبّه لابنتك؟ قال: لا، جعلني الله فداك، قال: وكذلك الناس لا يحبونه لبناتهم، أتحبّه لأختك؟ قال: لا، جعلني الله فداك، قال: كذلك الناس لا يحبّونه لأخواتهم. فوضع رسول الله صلّى الله عليه وسلّم يده على صدره وقال: اللهم طهر قلبه، واغفر ذنبه، وحصّن فرجه، فلم يكن شيء أبغض إليه منه.
وبعد أن أمر سبحانه وتعالى بالرفق في الدعوة والخطاب، أمر بالعدل والإنصاف في العقاب، والمماثلة في استيفاء الحق إذ قد تكون الدعوة سببا في إغاظة الآخرين، وإقدامهم على القتل أو الضرب أو الشتم

رد المحتار: (602/3، ط: دار الفکر)
قيل لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين وقيل يمنع؛ ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغيرهم من الأقارب في كل سنة هو المختار. اه فقوله هو المختار مقابله القول بالشهر في دخول المحارم كما أفاده في الدرر والفتح، نعم ما ذكره الشارح اختاره في فتح القدير حيث قال: وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 661 Jan 26, 2022
biwi ko ghair shari / sharai rasomat se / say rokne / roknay me / mein sakhti se / say kam lene / leney ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.