سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! 1: un balloted پلاٹ پر جسکی قسطیں ادا کی جارہی ہوں، زکوٰۃ کیسے ادا کی جائیگی، جبکہ پلاٹ الاٹ نہیں ہوا ہو، لیکن فائل کی کچھ ویلیو ہو؟
2: اگر allotment plot ہو گئی ہو، لیکن ابھی کچھ ہی قسطیں دی ہوں، یعنی %25 فیصد down payment دی ہو، تو پھر زکوٰۃ کی کیا صورت ہوگی؟
جواب: 1- واضح رہے کہ un balloted plot کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے، اگر اس کا رقبہ اور محل وقوع معلوم و متعین ہو، اگرچہ اس کی allotment نہ ہوئی ہو، تب بھی اس کی خریداری جائز ہے، اور اگر وہ پلاٹ تجارت کی نیت سے خریدا ہے، تو سال پورا ہونے پر اس فائل کی مارکیٹ ویلیو (Market value) اگر زکوٰۃ کے نصاب تک پہنچتی ہو، تو اس کی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے۔
2۔ جو پلاٹ تجارت کی نیت سے %25 down payment پر خریدا ہے، اور اس کی قسطیں باقی ہیں، تو اس پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو پر بھی سال پورا ہونے پر زکوٰۃ لازم ہوگی۔
البتہ تجارت کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر سال گزرنے پر جن قسطوں کی ادائیگی زکوٰۃ کے رواں سال میں واجب ہوگئی تھی، وہ کل رقم سے منہا کرنے کے بعد بقیہ رقم کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
اور اگر مذکورہ دونوں صورتوں میں پلاٹ تجارت کی نیت سے نہیں خریدے گئے ہوں، تو ان پر کوئی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھدایة: (23/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
"وإذا حصل الایجاب والقبول لزم البیع..... (ویثبت الملک لکل منہما)".
البحر الرائق: (126/6، ط: دار الكتاب الاسلامي)
"قوله (صح بيع العقار قبل قبضه) أي عند أبي حنيفة وأبي يوسف، وقال محمد لا يجوز لإطلاق الحديث، وهو النهي عن بيع ما لم يقبض، وقياسا على المنقول وعلى الإجارة، ولهما أن ركن البيع صدر من أهله في محله ولا غرر فيه لأن الهلاك في العقار نادر بخلاف المنقول، والغرر المنهي غرر انفساخ العقد، والحديث معلول به عملا بدلائل الجواز۔۔۔".
شرح المجلة: (173/2، المادة: 253، ط: مکتبة رشیدیة)
"للمشتری ان یبیع المبیع لآخر قبل قبضہ ان کان عقارا
واشار بقولہ : للمشتری ان یبیع الخ : الی ان بیعہ جائز، لکن لایلزم من جواز البیع نفاذہ ولزومہ؛ فانھما موقوفان علی نقد الثمن او رضی البایع، والا فللبایع ابطالہ - ای ابطال بیع المشتری".
الدر المختار: (454/4، ط: دار الفکر)
"ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي".
کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 1615/28،1611/12
الدر المختار: (272/2، ط: دار الفکر)
"(وَمَا اشْتَرَاهُ لَهَا) أَيْ لِلتِّجَارَةِ (كَانَ لَهَا )لِمُقَارَنَةِ النِّيَّةِ لِعَقْدِ التِّجَارَةِ".
فتح القدير: (178/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
"ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر".
الھندیة: (179/1، ط: دار الفکر)
"الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ".
کذا فی فتاوی بنوری تاون: رقم الفتوی: 144008200349
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی