عنوان: شخصیت اور خاندانی عرف ورواج کا لحاظ رکھتے ہوئے کسی شخص کو مہنگا ہدیہ/ تحفہ دینے کا حکم(9244-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب!علماء حضرات سے ہی سنا ہے کہ ھدیه اور تحفہ خلوصِ نیت سے ہوتا ہے، چاہے مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر کوئی رشتہ دار صاحبِ حیثیت ہو اور جس کو وہ ھدیه یا تحفہ دے رہا ہے، وہ بھی حیثیت میں ٹھیک ہو، مگر لینے والے کو یہ واضح طور محسوس ہو کہ اس کو ذاتی اور خاندانی اعتبار سے کم تر سمجھا گیا ہے، اور وہ یہ محسوس کرے کہ اس سے بہتر ہے کہ کچھ نہ دیا جائے، تو اس معاملہ میں خاندانی عرف اور ذاتی حیثیت کا دخل ہے، یا پھر دینے والا جو بہتر سمجھے وہ دے؟ شریعت اس میں کیا کہتی ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ اسلام نے مختلف مناصب اور خدمات پر فائز شخصیات کی رعایت رکھتے ہوئے، انہیں معاشرے اور خاندان میں ایک ممتاز حیثیت اور مرتبہ سے نوازا ہے۔
چنانچہ والدین کی غایت درجہ اطاعت اور ان کا احترام، علمائے کرام سے محبت اور ان کی تعظیم، مسلمان عادل حکمران کی بھرپور تائید اور اس کے مرتبہ کا لحاظ وغیرہ، اس کی واضح مثالیں ہیں۔
حدیث مبارکہ میں اس حوالے سے ایک کھلا اور واضح قانون بتایا گیا ہے:
"حضرت میمون بن ابی شبیب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک سائل ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، تو آپ رضی اللہ عنہا نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا دیا، پھر ایک دوسرا شخص آیا، جو مناسب کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھا اور صاحب حیثیت معلوم ہوتا تھا، اسے آپ رضی اللہ عنہا نے بٹھا کر کھانا کھلایا۔ جب آپ سے ان دو مختلف رویوں کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "لوگوں کو ان کے مرتبہ اور حیثیت پر اتارو"۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 4842)
مذکورہ حدیث مبارکہ کے اس جملہ "لوگوں کو ان کے مرتبہ اور حیثیت پر اتارو" پر غور کرنے سے بخوبی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر شخص کے ساتھ اس کے مرتبہ اور منصب کے مطابق معاملہ اور برتاؤ کرنا چاہیے، معاملہ اور برتاؤ کرنے میں سب لوگ یکساں اور برابر نہیں ہیں۔
لہذا اگر کوئی شخص کسی معزز اور قابل احترام شخص کی حیثیت اور مرتبہ کی رعایت رکھتے ہوئے، اسے دوسرے لوگوں کی بنسبت کچھ پر تکلف اور مہنگا ہدیہ اپنی خوشی ورضامندی سے پیش کرنا چاہے، تو اس کی شرعاً ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں اسراف اور ریاکاری سے بچا جائے، اور اپنے عرف ورواج کی مجبوری کی وجہ سے نہ دیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

سنن أبي داود: (باب في تنزيل الناس منازلهم، رقم الحدیث: 4842، 261/4، ط: المكتبة العصرية)
حدثنا يحيى بن إسماعيل وابن أبى خلف أن يحيى بن اليمان أخبرهم عن سفيان عن حبيب بن أبى ثابت عن ميمون بن أبى شبيب أن عائشة عليها السلام مر بها سائل فأعطته كسرة ومر بها رجل عليه ثياب وهيئة فأقعدته فأكل فقيل لها فى ذلك فقالت قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « أنزلوا الناس منازلهم ». قال أبو داود وحديث يحيى مختصر. قال أبو داود ميمون لم يدرك عائشة.
 
معالم السنن: (ومن باب قبول الھدایا، 168/3، ط: المطبعة العلمية)
-قال أبو داود : حدثنا علي بن بحر ، قال : حَدَّثنا عيسى بن يونس عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقبل الهدية ويثيب عليها.
قال الشيخ قبول النبي صلى الله عليه وسلم الهدية نوع من الكرم وباب من حسن الخلق يتألف به القلوب ، وقد روي عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال تهادوا تحابوا ، وكان أكل الهدية شعاراً له وأمارة من أماراته ووصف في الكتب المتقدمة بأنه قبل الهدية ولا يأكل الصدقة ، وإنما صانه الله سبحانه عن الصدقة وحرمها عليه لأنهأ أوساخ الناس وكان صلى الله عليه وسلم إذا قبل الهدية أثاب عليها لئلا يكون لأحد عليه يد ولا يلزمه له منة ، وقد قال الله عز وجل {لا أسألكم عليه أجراً} [الشورى : 23 ] فلو كان يقبلها ولا يثيب عليها لكانت في معنى الأجر۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 668 Feb 01, 2022
shakhsiyat or khandani urf wa riwaj ka lehaz rakhtey huwe kisi shakhs ko mehenga / expensive hadya / gift dene ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.