عنوان: ادھار فروخت کی صورت میں نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت لینا(9252-No)

سوال: السلام علیکم! اگر گاڑی کی قیمت دس لاکھ ہو، پانچ لاکھ دے کر باقی رقم چھ ماہ بعد دی جائے، اور پہلے طے ہوچکا ہو کہ تیرہ لاکھ قیمت دینی ہوگی، اس میں تین لاکھ کیا سود ہے؟ برائے کرم اس کا جواب عنایت فرمادیں۔

جواب: واضح رہے کہ ایک چیز نقد کی صورت میں کم قیمت پر، اور ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت پر فروخت کرنا جائز ہے، یہ معاملہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، البتہ بیچتے وقت نقد یا ادھار فروخت کرنے اور قیمت اور قسطوں کو متعین کرنا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ طے شدہ مدت سے تاخیر کی وجہ سے جرمانہ نہ لیا جائے۔
لہذا ذکر کردہ صورت میں اگر اس طرح معاملہ کیا جارہا ہو، تو مذکورہ معاملہ شرعا جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

شرح المجلة: (المادۃ: 245- 246)
البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح … یلزم أن تکون المدۃ معلومۃ في البیع بالتأجیل والتقسیط الخ

المبسوط للسرخسی: (13/8، ط: دار المعرفة)
وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ جاز

مجلة الأحکام العدلیة: (المادة: 225)
البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح

بحوث فی قضایا فقہیة معاصرة: (12/1، ط: دار العلوم كراتشي)
أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1027 Feb 02, 2022
udhar farokht ki sorat me / mein naqd k muqable / muqablay me / mein ziada / zyada qeemat lena

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.