سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر گھر اس شرط پر خریدا جائے کہ آدھی رقم یا رقم کا کچھ حصہ ابھی ادائیگی کرکے گھر کا قبضہ لے لیں، اور بقیہ رقم 4 سال کے بعد ادا کردیں، مکمل ادائیگی تک گھر بیچنے والے کے نام پر ہی رہے گا، اور مکمل ادائیگی کے بعد آپ کے نام منتقل کر دیا جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت میں چار سال جو پیسہ جمع کیا جائے گا، اس پر ہر سال زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے گی یا نہیں؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں مذکورہ شخص مقروض ہونے کے باوجود اگر مالدار ہو، تو اس صورت میں اس کے مال سے ہر سال قرض کی ادائیگی کی نیت سے جمع کی گئی رقم نکالنے کے بعد، اگر بقدر نصاب مالیت بچتی ہے، تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی، چاہے قرض ادا کرے یا نہ کرے، البتہ اگر قرض کی مقدار نکالنے کے بعد نصاب کے برابر مالیت نہیں بچتی، تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فتح القدیر: (140/2)
ومن کان علیہ دین یحیط بمالہ، ولہ مطالب من جہۃ العباد سواء کان من النقود أو من غیرہا، وسواء کان حالا أو مؤجلا، فلا زکاۃ علیہ۔
الدر المختار: (259/2، ط: دار الفکر)
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) .... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی