سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا کوئی شخص مسجد جاتے ہوئے اپنے والد سے آگے چل سکتا ہے؟
جواب: اسلام میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں والدین کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ادب و احترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے، اور ہر اس کام سے منع کیا ہے، جس سے والد ناخوش ہوتے ہوں، اور جو بے ادبی کے زمرے میں آتا ہو۔
امام بخاری نے الادب المفرد میں ایک روایت نقل کی ہے:حضرت عروہ بن زبیر بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دو شخصوں کو دیکھا، ان میں سے ایک سے دریافت کیا کہ یہ دوسرا شخص تمہارا کون ہے؟ اس نے کہا : یہ میرے والد ہیں، فرمایا: اس کو نام لے کر مت بلانا، اس کے آگے آگے نہ چلنا، ( اور جب بھی کسی مجلس میں جانا ہو تو) اس سے پہلے مت بیٹھنا۔(الادب المفرد، حدیث نمبر: 44)
مذکورہ بالا روایت کے مطابق انسان کو چاہیے کہ اگر وہ اپنے والد کے ساتھ چل رہا ہو، تو والد سے آگے نہ چلے، کیونکہ یہ بے ادبی میں شامل ہے، بلکہ ادب یہ ہے کہ اپنے والد کے پیچے ہوکر چلے، البتہ اگر والد کی خدمت کی وجہ سے آگے چلنا پڑے، مثلاً: راستہ دکھانا ہو، یا کوئی اور ضرورت در پیش ہو، جیسے نماز کے لئے جاتے ہوئے، جماعت کے نکلنے کا اندیشہ ہو تو پھر والد کے آگے چلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (بنی اسرائیل، الآیۃ: 23)
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًاo
الادب المفرد: (رقم الحدیث: 44، ط: دار الاشاعت)
حدثنا أبو الربيع ، عن إسماعيل بن زكریا قال : حدثنا هشام بن عروة ، عن أبيه عن غيره، أن أبا هريرة أبصر رجلين فقال لأحدهما : ما هذا منک ؟ فقال : أبي . فقال : لاتسمه باسمه ، ولا تمش أمامه ، ولا تجلس قبله۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی