سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کوئی شخص زکوۃ کے لئے کسی کو اپنا وکیل بنائے، تو کیا اس وکیل کے لیے ضروری ہے کہ اسی سال جس کی زکوٰۃ ہے، سارے پیسے آگے ضرورت مندوں کو دے دے، یا وہ ماہانہ بنیاد پر یا ضرورت کے تحت لوگوں کو آہستہ آہستہ دے سکتا ہے، جس میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ بھی ہو سکتا ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ کا سال مکمل ہونے پر زکوۃ کی ادائیگی میں جلدی کرنا بہتر ہے، البتہ بوقت ضرورت تھوڑی تھوڑی کرکے یا ماہانہ بنیادوں پر اگلے سال کے دوران زکوۃ ادا کرنے کی بھی گنجائش ہے، لیکن زکوۃ ادا کرنے میں بلا عذر تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر مؤکل نے وکیل کو کسی متعین مدت کے دوران زکوۃ ادا کرنے کا پابند نہ کیا ہو، تو وکیل مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق زکوۃ ادا کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (كتاب الزكاة، 272/2، ط: دار الفکر)
(وافتراضها عمري) أي علي التراخي وصححه الباقاني وغيره (وقيل: فوري) أي واجب علي الفور (وعليه الفتوي) كما في شرح الوهبانية (فياثم بتاخيرها) بلا عذر.
(قوله: فياثم بتاخيرها الخ) ظاهره الاثم بالتاخير ولو قل كيوم او يومين لانهم فسروا الفور باول اوقات الامكان. وقد يقال المراد ان لايوخر الي العام القابل لما في البدائع عن المنتقي بالنون اذا لم يئودي حتي مضي حولان فقد اساء واثم اه. فتامل.
فتاوی محمودیه: (باب اداء الزکاۃ، 467,468/9، ط: ادارۃ الفاروق)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی