سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا اپنے گھر کا کچرا پڑوسی کے ہاں پھینکنا گناہ میں شمار ہوتا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اسلام نے پڑوسیوں کو بڑی اہمیت دی ہے، اور ان کے ساتھ اچھے برتاؤ سے پیش آنے کو بڑی تاکید سے بیان فرمایا ہے، جناب رسول اللہ ﷺ نے پڑوسیوں کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے، اور انہیں ستانے، تکلیف پہنچانے اور اذیت دینے سے بہت سختی سے منع فرمایا ہے۔
چنانچہ جناب رسول اللہ ﷺکا ارشاد مبارک ہے: وہ ایمان والا نہیں، واللہ (اللہ کی قسم) ! وہ ایمان والا نہیں، واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔“ عرض کیا گیا : اللہ کے رسول! کون؟ آپﷺ نے فرمایا: ”جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔
(بخاری : حدیث نمبر:6016)
ایک حدیث میں ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺارشاد فرماتے ہیں: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔
( سنن ابن ماجه :حدیث نمبر: 3672)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کےرسول! فلاں عورت کا ذکر ہوتا ہے کہ وہ دن میں بہت زیادہ روزہ رکھتی ہے اور رات میں تہجد پڑھتی ہے، مگر اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عورت جہنمی ہے۔
اس شخص نے پھر کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں عورت کا ذکر اس کے قلت صوم و صلاۃ کے ساتھ ہوتا ہے، اور پنیر کے ٹکڑے خیرات کرتی ہے، مگر وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنتی ہے۔
(صحيح ابن حبان: حدیث نمبر: 5764)
ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ آدمی کو اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے، اگر پڑوسی کوئی غلط کام کرے، تو اس کو پیار، محبت اور نرمی سے سمجھانا چاہیے، اور اس کی برائی کا جواب اچھائی سے دینا چاہیے، تاکہ وہ عمدہ سلوک اور اچھے برتاؤ کی وجہ سے راہ راست پر آجائے، لیکن اگر بار بار سمجھانے کے باوجود وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا، اور مسلسل ایذا پہنچاتا رہتا ہے، تو ایسے پڑوسی کی ایذا و تکلیف سے بچنے کا مناسب حل تلاش کرنا چاہیے۔
چنانچہ احادیث مبارکہ میں اسی قسم کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر آیا، تو آپ نے فرمایا: جاؤ صبر کرو، پھردوسری یا تیسری بار جب وہ شکایت لے کر حاضر ہوا، تو آپ ﷺ نے اسے حکم دیا: جاؤ اپنا مال ومتاع راستہ میں ڈال دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا، جو لوگ راستہ سے گزرتے، وہ اس سے پوچھتے کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ جواباً کہا جاتا کہ اس کا پڑوسی اسے اذیت دیتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ جولوگ بھی یہ سنتے، وہ اس پڑوسی پر اللہ کی لعنت بھیجتے، یہاں تک کہ وہ پڑوسی خود اس کے پاس آیا اور یہ درخواست کرنے لگا کہ اپنا سامان اپنے گھر واپس لے چلو، اب تم میری جانب سے کبھی کوئی ایسی چیز نہ دیکھوگے، جو تمہیں نا پسند ہو۔
(سنن ابی داؤد: حدیث نمبر: 5153)
خلاصہ کلام:
ہمیں بحیثیت مسلمان چاہیے کہ ہم اپنے پڑوسی کے حقوق کا خیال رکھیں، اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں، اس کے دکھ درد میں شریک ہوں، اس کو تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔
نیز پڑوسی کے گھر کے سامنے کچرا پھینکنا ایک نازیبا حرکت ہے، اور ایک مسلمان کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے گلی، کوچوں کو گندہ رکھے، اپنے گھر، گلی اور محلے کو گندہ رکھنا یہ یہودیوں کی علامت ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عامر بن سعد اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالی پاک ہیں اور پاکی کو پسند کرتے ہیں، صاف ہیں اور صفائی ستھرائی کوپسند کرتے ہیں، مہربان ہیں اور مہربانی کو پسند فرماتے ہیں، سخی اور فیاض ہیں اور جود و سخا کو پسند فرماتے ہیں، پس اپنے گھروں کے صحن اور گھر کے سامنے میدان کو صاف ستھرا رکھو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو، جو گندگی کو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہیں۔
(المطالب العالية لابن حجر العسقلانی: حدیث نمبر: 2207)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 6016، ط: دار طوق النجاۃ)
عن أبي شريح، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «والله لا يؤمن، والله لا يؤمن، والله لا يؤمن» قيل: ومن يا رسول الله؟ قال: «الذي لا يأمن جاره بوايقه.
سنن ابن ماجه: (رقم الحدیث: 3672 ،ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي شريح الخزاعي، أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فليحسن إلى جاره.
صحیح ابن حبان: (رقم الحدیث: 5764، ط: مؤسسة الرسالة)
عن أبي هريرة، أن رجلا قال: يا رسول الله، إن فلانة ذكر من كثرة صلاتها، غير أنها تؤذي بلسانها قال: «في النار»، قال: يا رسول الله، إن فلانة ذكر من قلة صلاتها وصيامها، وأنها تصدقت بأثوار أقط، غير أنها لا تؤذي جيرانها، قال: «هي في الجنة.
سنن ابی داؤد: (رقم الحدیث: 5153، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي هريرة، قال: جاء رجل إلى النبي يشكو جاره، فقال: "اذهب، فاصبر" فأتاه مرتين أو ثلاثا، فقال: "اذهب فاطرح متاعك في الطريق"، فطرح متاعه في الطريق، فجعل الناس يسألونه، فيخبرهم خبره، فجعل الناس يلعنونه: فعل الله به وفعل، فجاء إليه جاره، فقال له: ارجع، لا ترى مني شيئا تكرهه.
المطالب العالية: (رقم الحدیث: 2270، 270/10، ط: دار العاصمۃ)
عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : إِنَّ اللهَ تَعَالَى طَيِّبٌ يُحِبُّ الطَّيِّبَ ، نَظِيفٌ يُحِبُّ النَّظَافَةَ ، كَرِيمٌ يُحِبُّ الْكَرِيمَ ، جَوَادٌ يُحِبُّ الْجُودَ ، فَنَظِّفُوا أَفْنِيَتَكُمْ وَلَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ الَّتِي تَجْمَعُ الْأَكْبَاءَ فِي دُورِهَا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی